اسلام آباد: نواز شریف اور اسحاق ڈار کی تقریر نشر کرنے پر پابندی کیخلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کسی اشتہاری کو ریلیف نہیں دے سکتی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نواز شریف اور اسحاق ڈار کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔چیف جسٹس نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے استفسارکیا کہ آپ کس کیلئے ریلیف مانگ رہے ہیں؟وکیل نے بتایا وہ عوامی مفاد کےلئے ریلیف مانگ رہے ہیں۔عدالت نے کہا یہ عوامی مفاد کا کیس نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی مسائل کی وجہ سے لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد اٹھ چکا، درخواست گزار کیا چاہتے ہیں کہ کس کو اجازت دے؟ پیمرا کے آرڈر سے کون متاثر ہوا ہے؟ جو لوگ متاثر ہوئے ہیں وہ پیمرا میں اپیل کریں، جس پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دو نہیں ہزاروں افراد مفرور ہیں۔ پٹشنر چاہتے ہیں کہ انہیں عوام تک معلومات پہنچانے سے نہ روکا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا آئین کے آرٹیکل 19کے تحت ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی ہے لیکن عدالتی اشتہاری کے لئے دنیا بھر میں قوانین موجود ہیں۔ مفرور شخص کی تو شہریت بھی معطل ہے شناختی کارڈ بلاک ہوجاتے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ پرویز مشرف کی تقریر بھی نشر کی جائے یا کوئی اور اشتہاری ٹی وی پر آکر تقریر کرے
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے عدالتی اشتہاریوں کو اس نظام پر اور عدالتوں پر اعتماد نہیں، تاہم عدالت کو مطمئن کرنے کے لئے وکیل درخواست گزار کو وقت دیکر سماعت 16 دسمبر تک ملتوی کردی۔