اسلام آباد : سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ فوج پر نواز شریف کی تنقید غداری تھی جبکہ میری تنقید درست ہے۔ آپ کو دیکھنا چاہیے کہ نواز شریف کس تناظر میں تنقید کرتا تھا اور میں کس تناظر میں تنقید کرتا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ آرمی چیف نے کیا سوچ کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے عمران خان کو اقتدار میں نہیں آنے دینا۔
وائس آف امریکا کو انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ مجھے آرمی چیف سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن انہوں نے الزام لگایا ہے کہ آرمی چیف کو ان سے کوئی مسئلہ ہے۔ مجھے گرفتار کیا تو یہ رد عمل تو آنا تھا۔
اس سوال پر کہ آپ اپنی گرفتاری سے پہلے اپنے بیانات میں کئی بار کہہ چکے تھے کہ اگر کچھ ہوا تو معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے اور کارکنان کا ردعمل آئے گا، تو کیا آپ اور آپ کی پارٹی کے دیگر رہنما پرتشدد واقعات کی ذمہ داری لیں گے؟ عمران خان نے جواب دیا کہ بالکل نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ "جب بھی میں نے کہا کہ مظاہرے ہوں گے تو ہر بار پر امن احتجاج ہی ہوا۔ یہ سیاست میں میرا 27 واں سال ہے۔ مجھے ایک بار بھی بتا دیں جب میں نے پرتشدد احتجاج کا کہا ہو۔ ہم نے ہمیشہ کہا کہ ہم آئین و قانون کے دائرے میں رہیں گے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ احتجاج ہمارا جمہوری اور آئینی حق ہے۔ جب انہوں نے مجھے جان سے مارنے کی کوشش کی تو اس وقت بھی ہنگامے اور جلاؤ گھیراؤ ہونا تھا لیکن نہیں ہوا۔ لیکن جب فوج نے مجھے گرفتار کیا تو اس کا تو ردعمل آنا ہی تھا۔ جب انہوں نے مجھے اغوا کیا، جسے سپریم کورٹ نے بھی غیر قانونی قرار دیا، تو اس کا تو ردعمل آنا ہی تھا۔"
وائس آف امریکا نے عمران خان سے سوال کیا کہ آپ اب آرمی چیف پر تنقید کر رہے ہیں لیکن ماضی میں آپ کی حکومت کے دوران جب آپ کے مخالفین فوج کی اعلیٰ قیادت پر تنقید کرتے تھے کہ وہ سیاست میں مداخلت کر رہے ہیں تو آپ کہتے تھے کہ یہ غداری کر رہے ہیں۔ آپ کی تنقید ان سے کیسے مختلف ہے؟
اس کے جواب میں سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ آپ کو میرے ان بیانات کو درست تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی اپنی سزا کا الزام آرمی چیف پر لگاتے تھے جب کہ وہ کیس دو سال تک سپریم کورٹ میں چلا اور جے آئی ٹی بنی جس میں انہیں قصور وار قرار دیا گیا تھا۔
چوں کہ انہیں سپریم کورٹ سے سزا ہوئی تو وہ ججز اور آرمی چیف پر الزام لگا رہے تھے۔ میرے وہ بیانات اس تناظر میں تھے۔ اب میں نے آرمی چیف کا اس لیے نام لیا ہے کیوں کہ مجھے ہائی کورٹ کی حدود سے فوج نے اغوا کیا اور فوج اپنے سربراہ کی اجازت کے بغیر کوئی کام نہیں کرتی۔ اس لیے میں نے ان کا نام لیا۔