پاکستا ن میں معیار تعلیم کی بحث برسوں پرانی ہے ۔ ملک کے نامور ماہرین تعلیم اکثر اس امر کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں کہ تعلیم کا معیار مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ اسکول ایجوکیشن ہو، یا کالج ،یونیورسٹی کی تعلیم ۔ معیار تعلیم کی صورتحال نہایت افسوسناک ہے۔ سرکاری اسکولوں کی بات کی جائے تو سب سے پہلے یہ سنگین معاملہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اسکول میں داخلہ لینے کی عمر کے حامل کم و بیش اڑھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ہر حکومت ان معصوم پھولوں کو اسکول میں داخل کرانے کا اعلان کرتی ہے۔اس ضمن میں کچھ نہ کچھ عملی اقدامات بھی کیے جاتے ہیں ۔ لیکن آج تک ایسے ٹھوس اقدامات ہوتے نظر نہیں آئے جن کے باعث یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہو جائے۔ سرکاری اسکولوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہاں مطلوبہ سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔ کہیں عمارت کی چار دیواری موجود نہیں۔ کہیں ٹائلٹ دستیاب نہیں۔ کہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ کہیں سرے سے عمارت ہی موجود نہیں۔ کہیں پڑھانے کے لئے اساتذہ موجود نہیں۔ کہیں استاد ہیں تو ان کی مناسب تربیت کا انتظام نہیں۔ ایسے میں معیار تعلیم کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ بڑے بزرگ بتاتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں سرکاری اسکولوں کا معیار نہایت عمدہ تھا۔ اساتذہ نہایت محنت اور دلجمعی سے اپنے شاگردوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ ذہین طالب علموں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے اور ان کی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کیلئے ان پر خصوصی توجہ دیا کرتے تھے۔ ہم سنتے ہیں کہ اس زمانے کے اساتذہ کرام کی لگن کا یہ عالم تھا کہ ذہین طالب علموں کے ساتھ ساتھ کمزور اور نالائق شاگردوں کو بھی خصوصی وقت دیا کرتے تھے۔ اسکول کے بعد بلامعاوضہ انہیں پڑھانے کے لئے اضافی وقت دیا کرتے ۔ یوں سمجھیے کہ ان کے لئے مفت ٹیوشن کا انتظام ہوا کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آ ج اعلیٰ عہدوں پر متمکن بڑے بڑے افسر، نامور سیاستدان، پروفیسر، جج صاحبان اور دیگر کامیاب افراد نہایت فخر سے یہ بتاتے ہیں کہ وہ ٹاٹ اسکولوں کی پیداوار ہیں۔ اب ایسا جذبہ ہے، ایسے اساتذہ اور نہ ایسے شاگرد۔ اب تو مادیت پرستی کی ایک اندھی دوڑ جاری ہے۔
ناقص معیار تعلیم کا معاملہ صرف سکولوں تک محدود نہیں ہے۔ کالجوں اور جامعات کے حالات بھی یکساں خراب ہیں۔ معیار تعلیم کی بحث اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے بھی سننے کو ملتی رہتی ہے۔ ہم اکثر یہ باتیں سنتے ہیں کہ پاکستان میں ہماری توجہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھانے پر مرکوز ہے۔ تعداد بڑھانے کی کوشش میں ، معیار کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ بہت سے کالج اور یونیورسٹیاں ڈگری بیچنے والی دکانیں ہیں۔ یہ بات سرکاری اور نجی دونوں طرح کے اداروں پر صادق آتی ہے۔ لیکن نجی شعبہ نسبتا زیادہ تنقید کی زد میں رہتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہمارے ہاں اچھے اور معیاری نجی تعلیمی ادارے موجود ہیں، جن کا نام معیار کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ یہ ادارے قومی اور عالمی سطح پر اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ تاہم ایسے ادارے فقط انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ اکثر پرائیویٹ کالج اور یونیورسٹیاں واقعتا ڈگری بیچنے کی فیکٹریوں کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ ایم ۔فل اور پی ۔ایچ۔ڈی جیسی نہایت اہم ڈگریاں دھڑا دھڑ بانٹی جا رہی ہیں۔ ان اعلیٰ ڈگریوں کے حامل امیدوار جب مارکیٹ میں نکلتے ہیں تو ان کی قابلیت کی قلعی کھل جاتی ہے۔
یہ نہایت سنجیدہ معاملہ ہے۔ لازم ہے کہ حکومت اس جانب توجہ مرکوز کرئے۔ تعلیمی اداروں کی تعداد برھانا بھی بے حد ضروری ہے، تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی تعلیمی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ مگر تعداد کے ساتھ ساتھ معیار پر توجہ دینا بھی لازمی امر ہے۔ سچ یہ ہے کہ معیار بہتر بنائے بغیر ، تعداد بڑھانا دانشمندی نہیں ہے۔ ایک اور نہایت اہم معاملہ یہ ہے کہ ہماری ریگولیٹری اتھاریٹیز بھی اپنے فرائض کامل یکسوئی اور ذمہ داری کے ساتھ انجام دینے سے قاصردکھائی دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایچ ۔ای۔ سی ایک بہت اہم ادارہ ہے۔ پاکستان کی تمام جامعات کی نگرانی اس ادارے کے فرائض میں شامل ہے۔ اس ادارے کو ہر سال بھاری بھرکم بجٹ عطا ہوتا ہے۔ اس کے پاس نہایت عمدہ عمارت ہے۔ افرادی قوت کی بھی بھرمار ہے۔ افسران لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں اور مراعات پاتے ہیں۔ لیکن اس کی کارکردگی کے حوالے سے کئی قصے سننے کو ملتے ہیں۔ کمیشن میں بہت سی تعلیمی پالیسیاں متعلقہ اسٹیک ہولڈروں کی مشاورت کے بغیر وضع کر لی جاتی ہیں۔ یہ پالیسیاں ماہرین تعلیم اور اساتذہ میں بے چینی پھیلانے کا باعث بنتی ہیں۔ یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایچ۔ ای۔ سی جیسے بااختیار اور کثیر وسائل کے حامل ادارے کی موجودگی میں جعلی کالج اور یونیورسٹیاں ڈھٹائی کے ساتھ قائم ہوتی ہیں اور برسوں کسی رکاوٹ کے بغیر نوجوانوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلتی رہتی ہیں۔ پھر کسی دن ہائیر ایجوکیشن کمیشن ایک انگڑائی لے کر بیدار ہوتا ہے۔ اداروں کی چیکنگ کی جاتی ہے۔ جرمانے عائد ہوتے ہیں۔ وارننگ نوٹس جاری ہوتے ہیں۔ ایک آدھ تعلیمی پروگرام بند کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کمیشن میں کئی مہینوں تک سکوت طاری رہتا ہے۔ میڈیکل جیسے نہایت حساس شعبے کے حوالے سے بھی یہی مجرمانہ غفلت دیکھنے کو ملتی ہے۔ پاکستان میڈیکل کمیشن جس کا کام میڈیکل تعلیمی اداروں کی نگرانی کرنا ہے۔ اس کی بھی نت نئی پالیسیاں متعلقہ حلقوں میں اکثر اضطراب کا باعث بنتی ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بغیر کسی اجازت نامے کے جعلی میڈیکل کالج قائم ہوتے ہیں اور دھڑلے سے ڈگریاں تقسیم کر کے طا لب علموں کے مستقبل کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ ان جعلی اداروں سے نکلنے والے ڈاکٹر لامحالہ مریضوں کی صحت کے ساتھ بھی کھیلتے ہیں۔ لاء کالجوں کے بارے میں بھی یہی شکایات سننے کو ملتی ہیں۔ تھوک کے حساب سے وکالت کی ڈگریاں تقسیم ہو رہی ہیں۔ سینئر وکلاء ان نئے نویلے وکیلوں کی علمی قابلیت کا نوحہ پڑھتے نظر آتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ جہاں دیکھو یہی افسوسناک صورتحال ہے۔ المیہ یہ ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں ۔اس بے فکری اور بے توجہی کی وجہ سے ناقص معیار تعلیم کا معاملہ آج تک حل نہیں ہو سکا۔ جعلی تعلیمی ادارے بھی کھلے عام ڈگر یا ں بانٹنے کا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ تعلیم فقط ایک شعبے کا نام نہیں ہے۔ یہ پاکستان اور اس کے نوجوانوں کے مستقبل کا دوسرا نام ہے۔ پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے، نوجوانوں کو بہتر مستقبل دینا ہے، تو ہمیں تعلیم کے شعبے پر توجہ دینا ہو گی۔ کھوکھلے نعروں کے بجائے ، تھوس عملی اقدامات کئے جائیں گے تب ہی یہ صورتحال تبدیل ہو گی۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو آنے والے وقت میں ہمارا ملک خدانخواستہ مزید پستیوں میں دھکیلا جائے گا۔ اللہ کرئے کہ یہ نوبت نہ آئے اور ہمارے صاحبان اختیار ہوش کے ناخن لیں ۔ آمین۔