پاکستانی روپیہ ہی نہیں پوری دنیا کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں گر رہی ہیں کیونکہ امریکہ نے شرح سود بڑھا دیا ہے۔ برطانیہ کینیڈا آسٹریلیا انڈیا سب ملکوں کی کرنسی گری ہے اور مسلسل گررہی ہیں۔ قرائین بتا رہے ہیں کہ اگلے چند دنوں میں پوری دنیا میں 2008/2009 والی معاشی صورتحال ہوگی۔ مہنگائی، روزگار کی کمی، خوراک کی قلت، بارشیں کم یا پھر سیلاب اور طوفان۔ شدید گرمی اور شدید سردی۔ اس زمین کی ایسی تیسی ہم زمین زاد خود کررہے ہیں۔ ورلڈ بینک نے اسی لئے بیالیس بلین ڈالر مختص کئے ہیں کہ انتہائی غریب ممالک اور دھکا سٹارٹ ملکوں کی معاش کو ٹیک لگ سکے۔ ایسے میں نا عمران خان سنبھال سکتا تھا نا شہباز شریف سنبھال سکتا ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو خود سنبھالنا ہے۔ آج سے شروع کریں اور اگلے دو سال تک عیاشی ختم کریں اور صرف ضرورت کی چیزیں خریدیں۔ مہنگا اور امپورٹڈ فون نہ خریدیں نہ ہم ایلون مسک ہیں اور نہ ہی جنت مرزا کہ ہمارا کام دھندہ ہی موبائل سے ہے۔ بچوں کے ولایتی ڈائپرز بند کریں اور مقامی بنے ہوئے ڈائپرز استعمال کریں۔ اندرون شہر موٹر سائیکل استعمال کریں ہمارا پیٹرول ہمارا نہیں ہے بلکہ باہر سے آتا ہے۔ ائیر کنڈیشن 26 سے اوپر نہ جانے دیں۔ ایک سال درآمدی برانڈ کے کپڑے نہ خریدنے سے ہمارے تن کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کھانے پینے اوڑھنے پہننے اور رہنے میں ہر ولایتی شے کا استعمال ترک کردیں اور مقامی اشیاء استعمال کریں۔ بچت کا قومی مزاج بنانا ہوگا۔ وزرا اور ممبران اسمبلی کا مفت پیٹرول، بجلی، سفر رہائش اور علاج عمران خان نے ختم کیا نہ یہ حکومت ختم کرے گی۔ اربوں پتی صنعتکاروں اور رئیل اسٹیٹ ٹائیکونز کو ٹیکس سبسڈی عمران خان نے ختم کی نہ یہ حکومت ختم کرے گی۔ جی او آر کالونیوں، باتھ آئی لینڈ اور اسلام آباد کے پوش علاقوں میں بیوروکریسی اور ججز کے اللے تللے عمران خان نے ختم کئے نہ یہ حکومت کرے گی۔ اگر حکومت کی طرف سے شہروں کے بیچوں بیچ جم خانہ، گالف کلبز اور اشرافیہ کے چونچلے بازی کے لئے قائم سیکڑوں کلبز کو نیلام کردیا جائے، وزراء اور ممبران اسمبلی کی مراعات 75 فیصد کم کردی جائیں، جائیداد کی وراثت اور تحائف والی منتقلی پر بھی ٹیکس لگایا جائے، درآمدات آدھی کردی جائیں تو ملک معاشی ایمرجنسی سے بچ سکتا ہے اور ہم سب انفرادی حیثیت میں وہ کام کرلیں جن سے اجتماعی طور پر ہمارے معاشی بحران کو حل کرنے میں کوئی مدد مل سکے تو یہ ملک کی اس سے بڑی خدمت ہوگی جو ہم چودہ اگست کو جھنڈے لگانے ، باجے بجانے اور تئیس مارچ کی پریڈ دیکھنے کو سمجھتے ہیں۔ ذاتی گناہ و کوتاہیاں معافی تلافی اور توبہ سے حل کردی جاتی ہیں۔ اجتماعی عیا شیوں کا علاج پھر بھوک، خوف، طوفان اور جنگوں سے ہی ہوتا ہے۔ اپنی خیر ہے اگلی نسل کا سوچیں۔
حال ہی میںتحریک انصاف حکومت کا ایک اور
مبینہ سکینڈل سامنے آگیاہے۔وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ برطانوی حکومت نے ریکارڈ نہ ملنے پر ایک پاکستانی بزنس مین پر جرمانہ کرکے تقریباً 150 ملین پاؤنڈ پاکستان بھجوائے مگر مسروقہ مال ریاست کے اکاؤنٹ میں نہیں آیا۔ تفصیلات کے مطابق وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ کل کے غدار آج کے حکمران بنے۔ کوشش کریں گے جو کاغذ کابینہ کو دکھایا گیا اس کی تحقیقات کریں گے،پچھلی حکومت میں برطانیہ سے منی لانڈرنگ کیس کے پیسے آئے وہ ریاست پاکستان کے تھے۔ قومی اسمبلی کے اجلا س میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہاکہ غوث بخش مہر نے جو باتیں کی ہیں وہ ٹھیک ہیں۔ انہوںنے کہاکہ جتنا میں محب وطن ہوں اتنے دوسرے بھی ہیں،ستر سال میں بہت سارے غدار بنائے گئے،میرے والد کو بھی غدار قرار دیا گیا تھا،کل کے جو غدار تھے وہ آج کے حکمران بنے ،ایک دوسرے کو غدار کہنے کی رسم ہم نے ڈالی۔ انہوںنے کہاکہ گورنر سندھ کی تقرری کے بارے میں معلومات نہیں ،(آج) منگل کو ایوان کو بتاؤں گا۔انہوںنے کہاکہ پچھلی حکومت میں برطانیہ سے منی لانڈرنگ کیس کے پیسے آئے وہ ریاست پاکستان کے تھے لیکن وہ 140 ملین پاؤنڈ سپریم کورٹ میں جمع کرادیئے گئے۔ انہوںنے کہاکہ ہم کوشش کریں گے کہ جو کاغذ کابینہ کو دکھایا گیا اس کی تحقیقات کریں گے۔ یوں تو خواجہ صا حب کی تقریر بہت مدلل اور پْرمغز تھی ، تاہم زیر ِنظر کالم میں پوری تقریر من وعن بیان نہیں کی جاسکتی۔ البتہ چیدہ چیدہ نکات بیان کرنے میں کو ئی حرج نہیں۔تو نہوںنے کہاکہ 45 ارب روپے پاکستان کے خزانے میں آنے چاہیے تھے۔ انہوںنے کہاکہ منی لانڈرنگ ثابت ہوئی، وہ رقم نیب کے حوالے کی گئی اور جنہوں نے واردات کی وہ رقم اس کو دے دی گئی۔ انہوںنے کہاکہ القادر یونیورسٹی کے ٹرسٹی عمران خان اور ان فیملی تھی، روحانیات کی یونیورسٹی بنائی گئی اس میں 32 طلبا مینجمنٹ سائنسز پڑھتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ یونی ورسٹی کے نام پر 450 کنال پھر 200 کنال زمین فرحت شہزادی کو دی گئی۔ وزیر دفاع نے کہا کہ یونیورسٹی کا ریکارڈ کسی بھی وزارت میں موجود نہیں۔انہوںنے کہاکہ سابق وزیر اعظم نے بحریہ ٹاؤن کے مالک کو فیسلیٹیٹ کیا،حکومت نے تحقیقات شروع کردی ہے۔انہوںنے کہاکہ حکومت برطانوی حکومت سے رابطہ کر رہی ہے۔ خواجہ آصف نے کہاکہ برطانیہ سے پوچھا جائے گا کہ عمران خان کو کیوں نوازا گیا،یہ ایک واردات ہے، ایسی درجنوں وارداتیں کی گئی ہیں،جو جرمانہ برطانیہ نے کیا تھا اس پر عمران خان سے وضاحت مانگیں گے،یہ دال میں کالا ہی نہیں پوری دال ہی کالی ہے،ایسی دالیں بہت سی نظر آئیں گی۔ قبل ازیں غوث بخش مہر نے کہاکہ سندھ اور وفاق میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہے،گورنر سندھ کے گھر کو سب جیل قرار دیا ہے،گورنر سندھ جیل میں رہ کر کیسے حکومت چلا رہا ہے۔انہوںنے کہاکہ ایک رکن کے متعلق کہا جارہا ہے کہ وہ اینٹی سٹیٹ ہے ،کوئی اینٹی سٹیٹ ہے تو وہ اسمبلی میں کیسے بیٹھ سکتا ہے؟اینٹی سٹیٹ رکن سے ضرورت کے وقت تو ووٹ لے لیا گیا۔ انہوںنے کہاکہ قومی اسمبلی آج بھی اپوزیشن لیڈر سے محروم ہے۔ ڈپٹی سپیکر زاہد اکرم درانی نے کہاکہ اپوزیشن لیڈر کا معاملہ ایک دو دن میں حل ہوجائے گا۔محسن داوڑ نے کہاکہ اس ملک میں غدار کے سرٹیفکیٹ بھی شائد کسی معیار پر بانٹے جاتے ہیں ، ہم پر تو چائے پینے پر بھی غداری کے مقدمات بنائے گئے مگر جو دن رات میر جعفر و میر صادق کی بات کررہا ہے اس کو کوئی پوچھتا نہیں ۔ انہوںنے کہاکہ شاید یہ کسی کی کنیت اور یا سیاسی وابستگی کا بھی معاملہ ہے ۔انہوںنے کہاکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کئے جا رہے مگر پارلیمنٹ لاعلم ہے ،سنا ہے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سوات کے سابق ترجمان اور ایک سینئر رہنما محمود خان کو رہا کردیا گیا ہے،سنا ہے کہ صدر مملکت کی جانب سے معافی دے دی گئی ہے مگر اس ایوان کو اس بارے علم نہیں، اس ایوان میں دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ بحث زیر بحث لانا ضروری ہے ،جن فاٹا کے تاجروں کے کاروبار کو لوٹا گیا تھا ان کو بھی امدادی چیکس میں بہت مشکلات ہیں۔
قارئین کرام، بظاہر یہ کا لم قومی اسمبلی کی کار روائی کو بیان دکھا ئی دیتا ہے۔ مگر اس ایک بار پھر پڑھیے اور سو چیے کہ اس کا ہمارے روزمرہ مسائل سے کتنا گہرا تعلق ہے۔