سپریم کورٹ نے 9 مئی واقعے کی سماعت کے دوران پولیس اور پراسیکیوشن کی ناقص تفشیش پر برہمی کا اظہار کیا، بعدازاں عدالت نے واقعے میں مبینہ طور پر ملوث 5 ملزمان کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواستیں منظور کرلیں۔
ملزمان کی ضمانتیں 50-50 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض منظور کی گئیں، ملزمان اویس، سیف اللہ، نصراللہ، کامران اور وقاص پر 9 اور 10 مئی کی درمیانی شب حمزہ کیمپ راولپنڈی میں حملہ اور توڑ پھوڑ کا الزام ہے۔
سپریم کورٹ میں 9 مئی واقعہ میں ملوث ملزمان کی ضمانت سے متعلق سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ میں شامل تھے۔
سانحہ 9 مئی کے پانچ ملزمان کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے پولیس اور پراسیکیوشن کو آڑے ہاتھوں لیا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال پوچھا کہ ملزمان کےخلاف کیا شواہد ہیں؟ کیا سی سی ٹی وی کیمروں سے شناخت ہوئی؟جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ حمزہ کیمپ سمیت دیگر مقامات کے کیمرے مظاہرین نے توڑ دیے تھے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس کا مطلب ہے ملزمان کےخلاف کوئی ثبوت نہیں صرف پولیس کے بیانات ہیں، مقدمہ میں دہشتگردی کی دفعات کیوں لگائی گئی ہیں؟ پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ ملزمان نے آئی ایس آئی کیمپ پر حملہ کیا۔
ایف آئی آر میں دہشتگردی کی دفعات لگانے پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کو پتہ ہے انسداد دہشتگردی کی دفعات کن حالات میں لگائی جاتی ہیں؟ حال ہی میں دہشتگردی کے واقعے میں ایک افسر کی شہادت ہوئی، وہ دہشتگردی کا واقعہ ہے۔ پشاور میں سانحہ آرمی پبلک اسکول دہشتگردی کا واقعہ تھا، کوئٹہ میں وکلا پر خودکش دھماکہ کیا گیا وہ دہشتگردی تھا، اپنا سیاسی کھیل سیاسی میدان میں لڑیں، عدالتوں میں سیاسی لڑائی نہ لڑیں۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ جب اسلحہ برآمد نہیں ہوا تو متعلقہ شق کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔
وکیل پنجاب حکومت نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسپیشل برانچ لاہور کا ایک ہیڈ کانسٹیبل بھی گواہ ہے۔جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ واقعہ راولپنڈی کا ہے اور گواہ لاہور کا، کیا حکومت کے خلاف ٹائر جلانا بہت بڑا جرم ہے؟ انہوں نے سوال پوچھا کہ کیا ایک ہیڈ کانسٹیبل کے بیان پر سابق وزیراعظم کو غدار مان لیں؟خدا کا خوف کریں یہ کس طرف جا رہے ہیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ سرکاری افسر کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی دفعہ بھی لگائی گئی، اس جرم کی سزا تو 2 سال ہے، سارے گواہ پولیس والے ہیں، کوئی آزاد گواہ نہیں۔پولیس کے پاس گواہی کے علاوہ کوئی ثبوت ہی موجود نہیں،جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا پھر موقع پر جا کر گرفتاری کی،جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ گرفتاری سے پہلے ملزمان کے نام کیسے معلوم تھے؟ سارے کیس کا پولیس خود ستیاناس کر دیتی ہے۔
وکیل سردار عبدالرازق نے کہا کہ ملزمان اپنی دکانیں بند کر کے جا رہے رہے تھے راستے میں پھنس گئے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایف آئی آر میں تو آئی ایس آئی کے آفس پر حملے کا لکھا ہی نہیں ہے، حساس تنصیاب تو بہت سی ہوتی ہیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ سی سی ٹی کیمروں کی ریکارڈنگ محفوظ ہوتی ہے لوگ موبائل سے بھی ویڈیو بناتے ہیں۔ جس پر وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ملزمان سے پیٹرول بم برآمد ہوئے ہیں، فائرنگ کا بھی الزام ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ پیٹرول بم کون کہاں سے لایا گھر سے تو کوئی لا نہیں سکتا، تفتیش کیا کہتی ہے؟ جس پر وکیل پنجاب حکومت نے جواب دیا کہ تفتیش میں یہ پہلو سامنے نہیں آیا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ملزمان پر فائرنگ کا بھی الزام ہے کوئی اسلحہ برآمد ہوا نہ پولیس زخمی ہوئی، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تفتیشی افسر اپنی طرف سے کہانیاں بنا رہا ہے۔
بعدازاں عدالت نے ملزمان کی منظور منظور کرتے ہوئے پچاس پچاس ہزار کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا۔