عمران خان کو ہٹانے میں فوج نے مدد کی، وہ اچھے سیاستدان ہیں، انتخابات 90 دن میں ہونے چاہئیں: مفتاح اسماعیل 

عمران خان کو ہٹانے میں فوج نے مدد کی، وہ اچھے سیاستدان ہیں، انتخابات 90 دن میں ہونے چاہئیں: مفتاح اسماعیل 
سورس: File

اسلام آباد : سابق وزیر خزانہ اور مسلم لیگ ن کے رہنما مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ عمران خان کو ہٹانے میں فوج نے مدد کی تھی لیکن امریکا کا ہاتھ نہیں تھا۔ گرفتاری کے دوران کہا گیا شاہد خاقان اور نواز شریف کے خلاف بیان دے دو چھوڑ دیں گے۔ عمران خان اچھے لیڈر نہیں سیاستدان اچھے ہیں۔ 

ڈیجیٹل پلیٹ فارم "وی نیوز" کو دیے گئے انٹرویو میں نے کہا کہ عمران خان کو وزیرِاعظم کے منصب سے ہٹانے میں امریکا کا ہاتھ نہیں تھا بلکہ انہیں اپوزیشن نے ہٹایا اور فوج اس معاملے پر اپوزیشن کے خلاف نہیں تھی۔ میرے خیال سے عمران خان کو ہٹانے میں فوج نے ساتھ بھی دیا ہوگا۔ جہاں تک مجھے ہٹانے کا تعلق ہے تو میں محض ایک وزیر تھا اور فقط ایک نوٹیفیکشن سے ہٹ گیا۔ 

انہوں نے کہا کہ جس طرح نواز شریف کو اقامے کی بنیاد پر عدالت نے نااہل کرکے ہٹایا وہ عدالتی مداخلت کی انتہا تھی۔ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد سے ہٹایا گیا جو اپوزیشن کا حق ہے۔ 2022ء میں برطانیہ میں بھی 2 وزائے اعظم عدم اعتماد کا شکار ہوئے ۔یہ بات سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں ہاتھ ہے اور کس طرح خان صاحب کو لائے تھے۔ 

مفتاح اسماعیل نے عمران خان کو ایک اچھا سیاستدان تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ جتنا اچھا بیانیہ انہیں بنانا آتا ہے شاید ہی پاکستان میں کسی اور کو آتا ہو۔ جب انہیں ہٹایا گیا تو سب سے پہلے بیرونی سازش کی بات کہی گئی، حقیقی آزادی کی بات ہوئی اور پھر اندرونی سیاست، باجوہ صاحب کی سازش، پھر کہا کہ محسن نقوی صاحب کی سازش ہے، اور آخر میں کاروباریوں پر الزام لگادیا گیا۔ وہ روز اپنا بیانیہ بدلتے رہتے ہیں۔ ان کے قول و فعل میں بہت تضاد ہے۔ قانون جب ان پر لاگو ہوتا ہے تو یہ نہیں مانتے۔ میں نے خدانخواستہ یہ کبھی نہیں کہا کہ عمران خان اچھے لیڈر ہیں، ہاں یہ ضرور کہا ہے کہ وہ اچھے سیاستدان ہیں۔

اپنے استعفی سے متعلق مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ لندن میں نواز شریف سے میٹنگ میں وزیرِاعظم شہباز شریف بھی موجود تھے۔ ظاہر ہے وزیرِاعظم کی مرضی کے بغیر تو یہ نہیں ہوا۔ مجھے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ نواز شریف کا تھا کیونکہ وہ پارٹی کے قائد تھے۔ 

مفتاح اسماعیل نے متعدد پالیسیوں سے متعلق غلطیوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ روپے کی قیمت کو معاشی طاقت سمجھتے ہوئے کبھی ہم نے روپے کی قیمت کو مصنوعی طریقے سے بڑھایا اور کبھی ڈالر کی قیمت کو کم کیا۔ جس زمانے میں ہم دنیا سے قرض لے سکتے تھے اس زمانے میں ہم نے قرض لے کر مارکیٹ میں پیسا ڈالا۔ عمران خان کے دورِ حکومت کے آخری سال 80 ارب کی درآمدات جبکہ 31 ارب ڈالرز کی برآمدات ہوئیں۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ سمندر پار پاکستانیوں سے آنے والی ترسیلات زر 30 ارب ڈالرز تھیں جبکہ ڈالر کا خسارہ ساڑھے 17 ارب ڈالرز تھا۔جب آپ کی درآمدات زیادہ اور برآمدات کم ہوں تو ظاہر ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھے گی۔ ہمیں چاہیے کہ جب ڈالر کی قیمت بڑھے تو درآمدات کم کریں پھر برآمدات خود بخود بڑھیں گی۔

مفتاح اسماعیل کے مطابق موجودہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے آنے کے بعد وہی کوشش کی گئی جو 2013ء سے 2018ء میں کی گئی جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ حتمی نتیجہ اخذ کیے بغیر ان کے مطابق ان کی گزارشات سچ ثابت ہوئیں۔ اس وقت اگر ہم تسلسل کے ساتھ دانشمندانہ فیصلے کرتے، چاہے وہ مشکل ہی کیوں نہیں ہوتے تو آج جب پیٹرول دنیا میں سستا ہوگیا ہے تو پیٹرول کی قیمت بڑھانے کی نوبت نہیں آتی اور نہ اتنی منہگائی ہوتی نہ شرح سود اس قدر بلند ہوتی۔ ‘میں سمجھتا ہوں کہ مشکل فیصلے کرلیے ہوتے تو اکتوبر اور نومبر سے بہتری آنے کا قوی امکان تھا۔

آئی ایم ایف سے مذاکرات کے ضمن میں مفتاح اسماعیل نے  بتایا کہ عوام کے ساتھ زیادتی تو ضرور ہو رہی ہے لیکن وہ اس سارے قضیے میں آئی ایم ایف کو قصور وار نہیں گردانتے بلکہ 75 سال میں ہمارے حکمرانوں نے جو پالیسیاں دی ہیں اس کی روشنی میں اصل قصور وار وہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے کرپشن مخالف بیانیے سے متعلق مفتاح اسماعیل نے وی نیوز کو بتایا کہ انہیں نہیں لگتا کہ خان صاحب یا کسی اور جماعت کے لیڈر کے ایجنڈوں میں کوئی فرق ہے۔ کرپشن کے الزامات تو ہر طرف لگ چکے ہیں۔اگر خان صاحب پر توشہ خانہ کے گفٹ بغیر اندراج کیے لینے کے الزامات نہیں ہوتے اور عثمان بزدار، فرح گوگی، مرزا شہزاد اکبر سمیت ان کے دیگر ساتھیوں پر کرپشن کے سنگین الزامات نہ لگے ہوتے تو ان کے کرپشن مخالف بیانیے کو بالکل فوقیت ملتی۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے 90 روز میں انتخابات کے مطالبے سے اتفاق کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ نہ صرف یہ کہ انتخابات 90 روز میں ہونے چاہئیں بلکہ اگر عمران خان جیت جاتے ہیں تو انہیں حکومت بھی ملنی چاہیے لیکن ساتھ ہی انہیں توشہ خانہ کیس میں جوابدہ بھی ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جب ہمیں آپ بنا الزام کے 5، 5 مہینے جیل میں ڈالتے ہیں۔ جب آپ ہم سے کہتے ہیں کہ نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے خلاف بیان دو گے تو چھوڑ دیں گے۔ فواد حسن فواد کو 19 ماہ، احد چیمہ کو 2 سال جیل میں رکھا تو پھر آپ کو توشہ خانہ کا جواب دینے بھی ضرور جانا چاہیے۔

مصنف کے بارے میں