اسلام آباد میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ افسوس ناک ہے۔ اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں اور اب تو مائنس ون کی باتیں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ مائنس ون کا مطلب ہے کہ عمران خان الگ ہو جائیں تو تحریک انصاف کی حکومت کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ پہلے یہ بات ایم کیو ایم نے کی تھی کہ عمران خان ہٹ جائیں تو تحریک انصاف کی حکومت بچ سکتی ہے۔ حالات جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں انہیں دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ مائنس ون ہو یا مائنس ٹو عمران خان انتہائی مشکل میں ہیں اور ان کے جارحانہ طرز سیاست نے حالات کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنے مزاج کے خلاف جا کر اصلاح احوال کی کوشش بھی کریں تو حالات بہتر ہونے کی امید بہت کم ہے۔ مایوسی گناہ ہے اس لیے انہیں اپنی اننگز آخری بال تک کھیلنا ہے۔ شاکر شجاع آبادی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔فواد چوہدری نے اپنے ایک ٹویٹ میں اپوزیشن کے لیے اس شعر کا حوالہ دیا تھا آج ان کی نذر
توں شاکر آپ سیانا ایں
ساڈے چہرے پڑھ حالات نہ پچھ
شاہ محمود قریشی نے بھی مائنس ون کے کسی فارمولے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اس کا مطلب یہی ہے کہ اس فارمولے کو کسی جانب سے سامنے لایا گیا ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہے بلکہ ماضی بھی مائنس ون پر بات ہوتی رہی ہے۔
حکومت تواتر سے یہ کہہ رہی ہے کہ ان کے اراکین اسمبلی کی خریدوفروخت جاری ہے۔ کروڑوں روپے میں ان کے ایم این ایز خریدے جا رہے ہیں لیکن اسے محض الزام برائے الزام ہی قرار دیا جا سکتا ہے کوئی ثبوت کوئی گواہ نہیں۔ منحرف اراکین اسمبلی حلفیہ یہ بیان دے رہے ہیں کہ انہوں نے اس مقصد کے لیے کوئی پیسہ لیا نہ کوئی دوسری مراعات کے لیے تقاضہ کیا۔ ان حالات میں کس کو معتبر سمجھا جائے۔ ہاں سیٹ ایڈجسمنٹ کی باتیں ضرور ہوئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کسی نہ کسی سودے بازی کے نتیجہ میں ہو رہا ہے ورنہ بیٹھے بٹھائے کون اقتدار کو لات مار سکتا ہے۔ سیاست سیاسی فائدے کے لیے ہی کی جاتی ہے اور ان اراکین اسمبلی نے اپنے آئندہ کے الیکشن کے لیے یہ سودے بازی ضرور کی ہو گی۔ راجہ ریاض نے تو برملا اس کا اظہار بھی کر دیا ہے کہ وہ اپنا اگلا الیکشن ن لیگ کے ٹکٹ پر لڑیں گے۔ تحریک انصاف کے جو لوگ منحرف ہو کر عمران خان کے خلاف ووٹ ڈالیں گے ان کو آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت نااہل قرار دیا جائے گا تو وہ دوبارہ سے الیکشن لڑ کر اسمبلی میں آ سکیں گے۔
تحریک انصاف کے لیے یہ سب قبول کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ سیاست اسی کا نام ہے۔ کل جو مخالف ہوتے ہیں آج وہ دوست بن جاتے ہیں۔ یہ ہنر اور یہ سیاست، میں نہ مانوں والے لیڈر کے لیے مشکل ہے۔ پنچھی دوبارہ اسی ڈال پر آنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ ان کے خلاف میڈیا کمپئین چلائی جائے۔ اپنے کارکنوں کے ذریعے ان کے خلاف مہم چلائی جائے۔ ان کے گھروں پر حملے کیے جائیں اور اس کی مثال سندھ ہاؤس پر ہونے والا حملہ ہے۔ پیپلزپارٹی اسے سندھ پر حملہ قرار دے رہی ہے۔ یہ مشتعل کارکنوں کا جذباتی ردعمل نہیں تھا بلکہ سوچی سمجھی کارروائی تھی۔ یہ محض ٹریلر ہے اور اس طرح کے مزید اقدامات اٹھائے گئے تو اس کا شدید ردعمل سامنے آئے گا۔ کیا تحریک انصاف تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ سڑکوں پر کرنا چاہتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر ملک کو انارکی کی جانب بڑھنے سے روکنا مشکل ہو جائے گا۔ اس ملک میں صرف ان کے پاس سیاسی طاقت نہیں ہے بلکہ دوسری سیاسی جماعتیں بھی اپنا وزن رکھتی ہیں۔ میں نہیں تو کوئی بھی نہیں والی روش کو خیرآباد کہیں گے تو ملک بچے گا۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا والی حکومت کتنی مستحکم ہو سکتی ہے؟ جو ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے اس سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ عمران خان اور اس کے ساتھیوں کو شکست نظر آ رہی ہے ان کے ساتھی ایک ایک کر کے چھوڑتے جا رہے ہیں۔ اسلام آباد میں اگر سندھ ہاؤس پر حملے جیسی کوئی اور کارروائی ہوتی ہے تو پھر وفاقی حکومت کے ہاتھ سے کھیل نکل جائے گا اور پھر معاملات کہاں سے کنٹرول ہوں گے عمران خان کو بھی اس کا ادراک ہونا چاہیے۔ عمران خان حکومت میں ہو کر بھی 2018 والی الیکشن مہم ہی چلاتے رہے ہیں اور جواب دہی سے دور بھاگتے ہیں۔ آپ حکومت میں ہیں تو آپ کو جواب دینا ہے کہ مہنگائی کیوں ہو رہی ہے، کرپشن کم ہونے کی بجائے بڑھ کیوں رہی ہے، امن و امان کی صورتحال پہلے کے مقابلے میں کیوں ٹھیک نہیں ہے۔ عام آدمی کو صحت کی بنیادی سہولیات کیوں میسر نہیں ہیں۔ صحت اور تعلیم کا نظام کیوں برباد کر رہا ہے۔ وزیراعظم کہتا ہے کہ کیا میں اس لیے وزیراعظم بنا ہوں کہ آلو اور ٹماٹر کے نرخ نیچے لاؤں تو پھر لوگ کہیں گے کہ آپ کس لیے وزیراعظم بنے ہیں۔
وزیراعظم صاحب کیا آپ اپنے اقدامات سے یہ ثابت نہیں کر رہے ہیں کہ سب کچھ آپ کو پلیٹ میں رکھ کر دیا گیا تھا۔ اب بھی آپ کے اردگرد وہ لوگ موجود ہیں جو دوسری جماعتوں سے اڑ کر آئے تھے۔ جہانگیر ترین کے جہاز اور امپائر کی انگلی نے آپ کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کی تھی۔ آپ آؤٹ بھی ہوتے تو امپائر آپ کو ناٹ آؤٹ قرار دیتا، خان صاحب یہ مزے تو آپ نے انجوائے کیے ہیں۔ سینیٹ کا الیکشن آپ کو یاد ہے۔ صادق سنجرانی کو کس دھونس سے چیئرمین شپ ملی۔ اب چھتری ہٹی ہے تو گرمیوں کی دھوپ کا مزہ بھی لیں۔ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ اس کے بعد بھی جاری رہے گا۔ آپ عدم اعتماد میں کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام دونوں صورتوں میں ایک نئی مہم سر کرنا ہے۔ اپوزیشن میں جاتے ہیں تو جو بچے ہوئے ہیں ان کو سنبھالنا ایک بڑا ٹاسک ہو گا۔ آپ کا کارکن سرد گرم موسم ساتھ چلے گا مگر جو صرف اقتدار کے لیے آئے تھے وہ اڑن چھو ہو جائیں گے۔ ذرا ارد گرد نظر دوڑائیں ان میں سے کتنے آپ کے ساتھ ہوں گے۔ آپ کامیاب ہوتے ہیں تب بھی دیکھیں کہ کون ہے جو قابل بھروسہ ہے اور کون ہے جو موسم کی گرمی سے پگھل جاتا ہے۔ کپتان نے آگے کی تیاری کر لی ہے، میرے کپتان ذرا سوچ سمجھ کر چال چلیں کہیں ایسا نہ ہو کہ مخالف کا پیادہ آپ کو شہ مات دینے کی اہلیت رکھتا ہو۔ لوگوں کے گھروں پر حملوں کا ٹرینڈ تحریک لبیک کے دھرنے میں چلا تھا اور میں اس اسمبلی کو آگ لگا دوں گا کی تقریر شیخ رشید نے کی تھی۔ وہ ایک مذہبی معاملہ تھا یہ ایک سیاسی معاملہ ہے اس لیے احتیاط لازم ہے۔ آپ نے کہا تھا کہ مجھے جیتنا بھی آتا ہے اور ہارنا بھی اور ہار کر دوبارہ سے جیتنا بھی۔ یہی سپورٹس مین سپرٹ ہے اس کا مظاہرہ اب ہونا چاہیے ۔