اسلام آباد: سپریم کورٹ نے الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل کے معاملے پر لارجر بنچ کی تشکیل کا فیصلہ کرتے ہوئے معاملہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بجھوا دیا۔
عدالت نے قرار دیا پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس آیندہ ہفتے ہوگا۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے اس کیس کو صوبائیت سے نکل کر پورے ملک کی سطح پر دیکھنا ہے۔ عدالت نے صدارتی آرڈیننس کے اجراء پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔
سپریم کورٹ میں 8 الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل سے متعلق الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ میں الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل سے متعلق الیکشن کمیشن کی اپیل پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس نعیم افنان پر مشتمل 2 رکنی بنچ سماعت کر رہا ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر اور پی ٹی آئی وکیل سلمان اکرم راجا عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹریبونلز کی تشکیل الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، 1977سے الیکشن کمیشن ہی الیکشن ٹربیونلز قائم کرتا آ رہا ہے، کیس میں آئین کے آرٹیکل 219(سی) کی تشریح کا معاملہ ہے، 14 فروری کو الیکشن کمیشن نے ٹریبونلز کی تشکیل کیلئے تمام ہائیکورٹس کو خطوط لکھے اور ججز کے ناموں کی فہرستیں مانگیں، لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے 20 فروری کو 2 ججز کے نام دئیے گئے، دونوں ججز کو الیکشن ٹریبونلز کیلئے نوٹی فائی کردیا گیا، 26 اپریل کو مزید دو ججز کی بطور الیکشن ٹریبونلز تشکیل دے گئے، 4 ٹربیونلز کی تشکیل تک کوئی تنازعہ نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس ہائی کورٹ ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کرسکتے، ایک میٹنگ میں بیٹھ کر سب طے کیا جاسکتا ہے، کیا پاکستان میں ہر چیز کو متنازعہ بنانا لازم ہے ؟ انتخابات کی تاریخ پر بھی صدر مملکت اور الیکشن کمیشن میں تنازعہ تھا، رجسٹرار ہائیکورٹ کی جانب سے خط کیوں لکھے جا رہے ہیں، چیف جسٹس اور الیکشن کمشنر بیٹھ جاتے تو تنازعہ کا کوئی حل نکل آتا، بیٹھ کر بات کرتے تو کسی نتیجے پر پہنچ جاتے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا ہم چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے بامعنی مشاورت کیلئے تیار ہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے تمام ہائیکورٹس کو خطوط لکھے تنازعہ نہیں ہوا، لاہور ہائیکورٹ کے علاوہ کہیں تنازعہ نہیں ہوا، بلوچستان ہائیکورٹ میں تو ٹربیونلز کی کارروائی مکمل ہونے کو ہے، میں جب چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تھا ہم نے واضح کہہ دیا تھا ٹربیونلز کے قیام کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔
قابل احترام ججز کیلئے کہا جاتا ہے، کیا انگلستان میں پارلیمان کو قابل احترام کہا جاتا ہے ؟
دوران سماعت ہائیکورٹ کیلئے قابل احترام کہنے پر چیف جسٹس نے روکتے ہوئے کہا کہ قابل احترام ججز کیلئے کہا جاتا ہے، کیا انگلستان میں پارلیمان کو قابل احترام کہا جاتا ہے ؟ یہاں پارلیمنٹرین ایک دوسرے کو احترام نہیں دیتے ، ایک دوسرے کو گالم گلوچ ہوتی ہے، الیکشن کمیشن کو قابل احترام کیوں نہیں کہتے، کیا الیکشن کمیشن قابل احترام نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین بالکل واضح ہے الیکشن ٹربیونلز کا اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل ہے، آرٹیکل 219 سیکشن (سی ) نے بالکل واضح کر دیا ہے، ہم نے عدالتی فیصلوں پر نہیں آئین وقانون کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے، سپریم کورٹ نے جب جب آئینی تشریح کی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آئین آرڈیننس کے اجراء کی اجازت دیتا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریٹائرڈ ججز پر مشتمل ٹریبونلز تشکیل سے متعلق صدارتی آرڈیننس کے اجراء پر اہم ریمارکس دیے کہ صدارتی آرڈیننس لانا پارلیمنٹ کی توہین ہے، اگر آرڈیننس ہی لانا ہے تو ہاوٴس بند کر دیں، صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی کیسے کی جاسکتی ہے؟ ایک طرف پارلیمان نے قانون بنایا ہے، پارلیمان کے قانون کے بعد آرڈیننس کیسے لایا جا سکتا ہے، آرڈیننس لانے کی کیا وجہ تھی کیا؟ کوئی ایمرجنسی تھی، پارلیمان کے قانون کے بعد آرڈیننس کدھر سے آگیا، کوئی ایمرجنسی ہوتی تو سمجھ میں آتا ہے، یہ بھی تو الیکشن میں مداخلت ہے، الیکشن ایکٹ تو پارلیمان کی خواہش تھی، یہ آرڈیننس کس کی خواہش تھی، پارلیمان کی وقت زیادہ ہے یا کابینہ کی؟ اس آرڈیننس کے ذریعے ہائیکورٹ فیصلے کی نفی کی گئی۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے دیکھنا چاہتے ہیں پنجاب میں ٹربیونلز کے قیام کے معاملے پر ہی تنازعہ کیوں سامنے آیا۔ عدالت نے چاروں ہائی کورٹس اور الیکشن کمیشن کے درمیان ہونے والی خط و کتابت کا مکمل ریکارڈ طلب کر لیا. عدالت نے قرار دیا الیکشن کمیشن لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت کر سکتا ہے۔
عدالت نے لارجر بینچ کی تشکیل کیلئے معاملہ تین رکنی کمیٹی کو بھجواتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔