سترہویں صدی کے آخرتک مغلیہ سلطنت ہند کوسونا کی چڑیا کہا جاتاتھااورصنعتی مرکز اور دنیا کی جی ڈی پی کا 25% مصنوعات تیار کرنے کی وجہ سے امیر ترین سلطنت تھی۔عمارتیں، سڑکیں، سرائے، پل، نہریں جدید انجینئرنگ کا شاہکار تھیں۔دلّی اور لاہور دو مضبوط تہذیبی مراکز تھے جس نے ایسے ہندوستان کو جنم دیا جس کی ننانوے فیصد آبادی پڑھی لکھی تھی،سکولز، کالجز اوریونیورسٹیز کا ملک بھر جال بچھا ہوا تھا۔ 1798تک ہندوستانی تعلیمی نظام دنیا کا سب سے بہترین اور اعلی پائے کا تعلیمی نظام مانا جاتاتھا، جس میں تمام فکری، مابعدالطبیعاتی اور سائنسی علوم پڑھائے جاتے تھے جن کا تصور بھی یورپ میں نہیں ہوتا تھا۔زمین زرخیز، وسائل سے مالامال اورلوگ محنتی وہنرمند تھے۔یہاں پیدا ہونے والے سوتی کپڑے اور ململ کی مانگ دنیا بھر میں تھی،جہاز رانی اور سٹیل کی صنعت میں بھی ہندوستان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ جبکہ برطانیہ خانہ جنگی سے سنبھلتے ہوئے ایک زرعی ملک تھا اور جہاں دنیا کی صرف دو فیصدمصنوعات تیار ہورہی تھیں۔ یورپ کی بڑی طاقتیں، پرتگال اور سپین، تجارت میں برطانیہ کو پیچھے چھوڑ چکی تھیں، جبکہ برطانوی قزاق تاجروں کے روپ میں ان کے تجارتی جہازوں کو لوٹنے پر اکتفا کرتے تھے۔
انگلینڈنے دسمبر 1600میں ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کر کے اسے ایشیائی ممالک کے ساتھ بلاشرکتِ غیرتجارت کا اجازت نامہ جاری کیا۔برطانیہ کو ہندوستان کیلئے ادراک ہو گیا کہ مغلوں کی چالیس لاکھ فوج کے ہوتے ہوئے جنگ و جدل کی گنجائش نہیں لہٰذا انگریزوں نے مغل سلطنت سے سفارت کاری پر توجہ دی اورٹامس رو جی سے سفارتکار کو ہندوستان بھیجا تاکہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کیلئے بند دروازے کھول دے،لیکن شہنشاہ جہانگیر کیلئے برطانیہ کے ساتھ تعلقات ترجیح نہیں تھے۔مغل شہنشاہ پوری دنیا میں صرف ایران کے صفوی بادشاہ، ترک عثمانی خلیفہ اورچین مِنگ بادشاہ کواپنا مدِمقابل سمجھتے تھے۔ اس زمانے میں صرف چین کا مِنگ خاندان ہی صنعتی مرکز وسرمائے میں مغل شہنشاہ کی برابری کرسکتا تھا۔یوں دنیاکی کل75% صنعتی ضروریات ہندوستان اور چین پوری کرتے تھے۔ مغل شہنشاہ کی نظر میں انگلستان ایک چھوٹا سا بے وقعت جزیرہ تھا،لہٰذا کسی معمولی بادشاہ کے ساتھ برابری کی سطح پر معاہدہ کرنا مغلوں کی شان کے خلاف تھا۔ ٹامس رو شہنشاہ جہانگیر سے تو نہیں، البتہ ولی عہد شاہجہان سے 1618 میں ایک معاہدے پر دستخط کروانے میں کامیاب ہواجس کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کو سورت میں کاروبار کرنے کی اجازت مل گئی۔کمپنی مغل ہندوستان سے سوت، نیل، پوٹاشیم نائٹریٹ اور چائے خرید کر بیرون ممالک مہنگے داموں فروخت کرکے خوب منافع کماتے اور افریقن غلاموں کو دیگر جزائر، سپین اورامریکہ میں بیچ کر حاصل کردہ چاندی معاوضہ سے ادائیگی کرتے تھے۔انگریزوں نے ہندوستان کے مختلف ساحلی شہروں میں تجارتی اڈے قائم کیے جنہیں فیکٹریاں کہا جاتا تھالیکن جلد ہی معاملہ محض تجارت سے آگے بڑھ گیا۔ کمپنی کی دوسرے یورپی ملکوں سے اکثر جنگیں چلتی رہتی تھیں اور یہ ایک دوسرے کا مال لوٹنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے، اس لیے انگریزوں نے اپنی فیکٹریوں میں بڑی تعداد میں مقامی سپاہی بھرتی کرنے شروع کر دیئے۔
پھر ایک چھوٹی سی کمپنی اتنی طاقتور ہو گئی کہ ہزاروں میل دور ملک میں 40 کروڑوں لوگوں کی زندگیوں اور موت پرقادر ہوگئی اوربرطانیہ اگلے تین سو برس ہندوستان سے جو دولت لوٹ کر لے گیااس کا تخمینہ 70کھرب ڈالر ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہی کام چین کے ساتھ بھی کیا،سترہویں صدی کے آخر میں کمپنی چین سے سلک اور چینی کے برتن خریدتی اورادائیگی چاندی کی صورت میں کرتی تھی کیونکہ ان کے پاس کوئی مصنوعات ایسی نہیں تھیں جنکی چین کو ضرورت ہو۔ اس کا یہ حل نکالا گیا کہ بنگال میں پوست کی کاشت کی اور صوبے بہار میں فیکٹریاں قائم کر کے افیون تیارکرکے چین سمگل کرنا شروع کیا۔افیون کی تجارت سے کمپنی نے سِلک اور چینی کے برتن خریدے اور نفع بھی کمایا۔ جب چینی حکومت نے افیون کی اس تجارت کو روکنے کی کوشش کی تو چین اور برطانیہ کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں جن میں چین کو شکست ہوئی اور برطانیہ نے چین کے ساتھ حقارت آمیز شرائط پرکئی معاہدے کئے،اس کی بندرگاہوں اور ہانگ کانگ پر برطانیہ کا قبضہ اسی سلسلے کی کڑی تھی جو 1997 میں واپس چین کو ملا۔
بالآخر 1857کی جنگ آزادی کے بعدہندوستان برطانوی حکومت کی عملداری میں آ گیااورایسٹ انڈیا کمپنی کوآخر یکم جون 1874 کو تحلیل کردیا گیالیکن 1947 تک ہندوستان پرجو بھیانک ظلم ڈھائے گئے انکے گہرے اثرات آج تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔1857 کی جنگ آزادی میں کمپنی نے ہزاروں افراد کو بازاروں وسڑکوں پر لٹکا کر قتل کیا،جو برطانوی نوآبادیاتی تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام تھا۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے 120 سالہ دور میں 34 مرتبہ قحط پڑا جس میں دو کروڑ 66 لاکھ ہندوستانیوں کی جانیں ضائع ہوئیں، قحط کی وجہ انگریزدور میں حکومتی ناجائز پالیسیاں، ظالمانہ ٹیکسز اور تجارتی استحصال تھیں۔اس تعداد میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران بنگال میں آنے والے قحط سے مزید 50 لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے یوں کمپنی اوربرطانیہ کی براہِ راست حکومت کے دوران تین کروڑسے زائد ہندوستانی قحط کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ درست ہے کہ کمپنی نے سڑکیں بنائیں، پل بنائے، ریل چلائی لیکن اصل مقصد کاٹن، سلک، افیون، شکر، مصالحہ جات اور فوجی بھرتی کیلئے افراد اور غلاموں کی ترسیل بندرگاہوں تک پہنچانے اور اپنی تجارت کو فروغ دینا تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر کے دور تک عالمی جی ڈی پی کا25% حصہ پیدا کرنے والامغل ہندوستان 1947 میں جب انگریز یہاں سے گئے تو اس کاعالمی جی ڈی پی میں حصہ صرف 2فیصد رہ گیا اورتاجِ برطانیہ کا سب سے درخشاں ہیرافی کس آمدنی کے حساب سے دنیا کا غریب ترین ملک بن گیا تھا۔ 1857ء میں یہی ہندوستان تھا جو انگریز کو ملا تو وہ 99 فیصد خواندہ اور پڑھا لکھا تھا مگر انگریز نے جب 1947 میں اسے چھوڑا تو یہ 88فیصد اَن پڑھ اور صرف 12 فیصد خواندہ اور پڑھا لکھا چھوڑ کررہ گیا تھا۔ انگریزوں نے 1757 تا 1947 دو سو سالہ استحصالی دور میں ہندوستان کے 70کھرب ڈالر سے زائداثاثوں کو لوٹا اورانگلینڈ پہنچایا،اس کے مقابل نادر شاہ کو دہلی سے صرف 143 ارب ڈالر لوٹنے پرہی اکتفا کرنا پڑاتھا۔آسان الفاظ میں 70کھرب ڈالرز کا مطلب 70000 ارب ڈالرز ہے، جس کے مقابل پاکستان کی 75سالہ آزادی میں ہمارا کل بیرونی قرضہ 122 ارب ڈالرزہے۔یوں انگریز سرکار نے ہندوستان کو ایک صنعتی ملک کی سے ایک زرعی ملک بنا دیااورخودایک صنعتی ملک بن گیا۔درحقیقت آج انگلینڈ کی تمام ترقی اور خوشحالی کے پیچھے ہندوستان اور نو آبادیاتی نظام کی سفاک لوٹ مار، منشیات اور غلاموں کی تجارت شامل ہے۔