انسانی زندگی میں جنگلات کی اہمیت کا کوئی بھی نعم البدل نہیں کیونکہ جنگلات ماحول کو صاف ستھرا بنانے میں انتہائی اہم ہیں۔ آکسیجن کی کمی کو پورا کرتے ہوئے بارش کا سبب بنتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے شہروں کے قریبی گاؤں ماحولیاتی کثافت کی زد میں ہیں، حالانکہ یہ مسئلہ صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ عالمی سطح کا ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک کثافت کے سبب انسان ہی نہیں بلکہ جانور بھی پریشان ہیں۔ ماحولیاتی کثافت میں دن بہ دن ہونے والے اضافے کے باعث کائنات کا ماحولیاتی توازن بگڑ رہا ہے اور فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے۔ زمین کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث پہاڑوں میں تبدیلیاں نمودار ہو رہی ہیں۔ گلیشیئر پگھل رہے ہیں اور زمین کی منجمد سطح متاثر ہو رہی ہے۔ زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے کیمیائی کھادوں کے اندھا دھند استعمال سے مٹی کی قوت میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ آج دنیا کو بچانے کے لیے جن اہم اقدامات کی اشد ضرورت ہے ہم ان پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ ماحولیات کے بچاؤ کا صرف اور صرف ایک ہی راستہ ہے کہ انسان اپنی مشینی زندگی کو چھوڑ کر ایک بار پھر فطری زندگی کی طرف لوٹ جائے۔ ماحولیات میں پیدا ہوتی خرابی کا ایک بڑا سبب درختوں کی بے دریغ کٹائی اور دنیا سے ہریالی کا خاتمہ بھی ہے۔ آئے روز نئے سے نئے شہر آباد ہو رہے ہیں جن کے لیے جنگل کاٹے جا رہے ہیں۔ محکمہ جنگلات کی قانون پر کمزور گرفت اور مبینہ ملی بھگت کے باعث سرمایہ دار طبقہ بآسانی قیمتی اور نایاب درخت کاٹ کر کنکریت کے محل تعمیر کرتا ہے۔
مکاں بناتے ہوئے چھت بہت ضروری ہے
بچا کے صحن میں لیکن شجر بھی رکھنا ہے
یہ درخت زمین کا زیور ہیں انسانی بقا کا تصور ان کے بغیر ممکن نہیں، زمین کی خوبصورتی اور بنی نوع انسان کو اچھا اور صاف ستھرا ماحول فراہم کرنے میں درخت سب سے اہم کردار ادا کر تے ہیں لیکن بد قسمتی سے پاکستان جنگلات کی شدید کمی کا شکار ہے۔ پاکستان میں جنگلات کا کل رقبہ چار اعشاریہ چار ملین ہیکٹر ہے جو کہ کل رقبے کا 4.8 فیصد ہے۔ ہماری بے حسی اور بد بختی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنگلات کی کٹائی میں عالمی سطح پر پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔
شجر کے قتل میں اس کا بھی ہاتھ ہے
شاید بتا رہا ہے یہ بادِ صبا کا چپ رہنا
پاکستان اپنے متنوع جغرافیے کے باعث کلائمیٹ چینج کے خطرات سے دوچار ہے پہاڑوں میں تیزی سے پگھلتے گلیشیئر، صحراؤں میں خشک سالی، سطح سمندر میں آئے روز ہو رہا اضافہ اور بارشوں میں مسلسل کمی اب معمول بنتی جا رہی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ سبحان تعالیٰ نے جنت کے باغوں کا ذکر کیا ہے جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اس سے واضح ہوتا ہے کہ باغات انسانوں کے لیے نہایت اہم ہیں، مگر ہم ان کی جانب توکبھی توجہ نہیں دیتے۔ احادیثِ نبویﷺ میں متعدد مقامات پر جنگلات اور شجر کاری کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔۔ جو مسلمان بھی پودا لگائے گا اور اس سے کچھ کھا لیا جائے گا، وہ اس کے لیے صدقہ ہو جائے گا اور جو چوری کر لیا جائے، وہ قیامت تک کے لیے اس کے لیے صدقہ ہو جائے گا۔
اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایہ جائے
دینِ اسلام میں جہاں مسلمانوں کو درخت لگانے کا حکم دیا گیا وہیں دوسری طرف ہرے بھرے سرسبز درختوں کو کاٹنے کی سختی کے ساتھ ممانعت بھی کی ہے۔ یہاں تک کہ دینِ محمدیﷺ میں اس بات کی اجازت بھی نہیں کہ حالتِ جنگ میں دشمنوں کے کھیتوں کو برباد کیا جائے اور ہرے بھرے درختوں کو کاٹا یا جلایا جائے۔ ہریالی اور جنگلات کے تحفظ کا تصور سب سے پہلے نبی کریمﷺ نے دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔۔ جو کسی بیری کے درخت کو کاٹے گا، اللہ تعالیٰ جہنم میں اس کے سر کو اوندھا کر دیں گے۔ چند دن پہلے پاکستان کے دو ہزار سے زائد مقامات شدید آگ کی لپیٹ میں تھے، جن میں سے پچپن مقامات پر بھڑکنے والی آگ میں مقامی لوگوں کے ملوث ہونے کے شواہد پائے گئے۔ کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا، مگر صرف ایک مجرم کو چار ہزار روپے جرمانے کی سزا دی گئی۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم ماحولیات پر بھرپور توجہ دیں اور زیادہ سے زیادہ شجرکاری کریں۔۔ جن افراد کے جنگلات کو آگ لگانے کے شواہد پائے گئے ان سے اس علاقے میں ہزاروں پودے لگوائے جائیں۔۔ جنگلات انسانی بقا کے لیے انتہائی لازم ہیں، ہمیں زیادہ سے زیادہ شجر کاری کرتے ہوئے ان کے رقبے کو وسیع کرنا ہو گا۔ شجرکاری نا صرف سنتِ رسول اللہﷺ ہے بلکہ ماحول کو دلکش اور خوبصورت بنانے کے ساتھ ساتھ زمین کی زرخیزی میں بھی معاون اور مددگار ہے۔ شجرکاری ہمارے ملک کے لیے وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔ زیر زمین پانی کی مسلسل گرتی ہوئی سطح کو روکنے کے لیے بارشوں کی اشد ضرورت ہے، جس کے لیے درختوں کا ہونا لازم ہے۔
راستے میں کوئی سایہ نا پائے گا
یہ آخری درخت بہت یاد آئے گا