اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کیس پر حکم امتناعی خارج کرتے ہوئے تمام اداروں کو چینی رپورٹ پر کارروائی کی اجازت دے دی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے مختصر فیصلہ میں شوگر ملز ایسوسی ایشن کی چینی رپورٹ پر کاروائی روکنے کی درخواست مسترد کر دی ہے۔
دو صفحات پر مشتمل فیصلہ میں جاری کیا گیا ہے کہ درخواستگزار سمیت کوئی بھی فریق ہو اس کا فیئر ٹرائل کا حق متاثر نہیں ہونا چاہیے، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ وفاقی حکومت کا نیب کوکیس بھیجنا درست ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے چھٹی کے دن چارگھنٹے تک دلائل سنے۔ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے مختصر فیصلے کے مطابق انکوائری کمیشن کی تشکیل درست تھی، قیمت کا تعین کرنا ہمارا نہیں ایگزیکٹوکا اختیارہے۔ وفاقی وزراء فیصلے پر بیان بازی نہیں کرینگے۔ فیصلے میں چینی کمیشن پر عملدرآمد کیلئے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ شہزاد اکبر کو تفویض کردہ اختیارات غیرقانونی قرار دیئے گئے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ وفاقی کابینہ کا شہزاد اکبر کو اپنے اختیارات تفویض کرنا خلاف قانون ہے، کابینہ کا شہزاد اکبر کو اختیارات دینا سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔
اس سے قبل کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں یہ رواج بن چکا ہے، شوگر ملز کے طاقت ور طبقات حکومت میں موجود ہوتے ہیں، یہ کہنا غلط ہو گا کہ انکوائری کمیشن سیاسی مخالفین سے انتقام کے لئے بنایا گیا، انکوائری تو حکومت کے اپنے مضبوط اتحادیوں اور دوستوں کیخلاف بھی ہو رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کسی تعصب پر مبنی کارروائی نہیں۔
خالد جاوید خان نے کہا کہ کمیٹی میں آئی ایس آئی کے ممبر کی شمولیت کا اعتراض آیا تھا اس کی وضاحت کردوں، سپریم کورٹ نے پانامہ اور فیک اکاونٹس کیس میں بھی جے آئی ٹی تشکیل دی، اس میں بھی مختلف اداروں کے افسران کو شامل کیا گیا تھا، انکوائری کمیشن نے ایسے ٹی او آرز کے تحت کام کیا کہ شوگر انڈسٹری کے تمام پہلوسامنے آسکیں، ایک لحاظ سے یہ رپورٹ مکمل ان کے خلاف بھی نہیں بلکہ اس میں غیر قانونی اقدام کی نشاندہی کی گئی ہے۔
کیس کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شوگر ملز کا مسئلہ حکومتی پریس کانفرنسز بھی ہیں، جو حکومت میں ہیں ان کو تو اس طرح کی پریس کانفرنسز کرنے کی ضرورت ہی نہیں، ایسی پریس کانفرنسز دوسرے فریق کے حقوق متاثر کرتی ہیں، انکوائری اور تفتیش کے شروع میں ایسی پریس کانفرنسز نہیں ہونی چاہئیں۔
شوگر ملز کے وکیل مخدوم علی خان نے حکم امتناع میں توسیع کی درخواست کی تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے شوگر انکوائری رپورٹ پر مزید اسٹے آرڈر دینے سے انکار کردیا۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کرکٹر سلیم ملک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کرکٹر پر آئی سی سی کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کا الزام تھا اور انہوں نے پاکستان میں کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی تھی لیکن ان پر جو الزام تھا اس سے متعلق پاکستان میں کوئی قانون موجود نہیں تھا اس لیے انکوائری کمیشن بنایا گیا، لہذا شوگر کے معاملے پر تمام متعلقہ قوانین ملک میں موجود ہیں، حکومتی انکوائری کمیشن کی ضرورت نہیں تھی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے شوگر ملز وکیل سے کہا کہ کمیشن رپورٹ میں وفاقی وزیر اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے بارے میں بھی لکھا ہے کیا وہ بھی تعصب ہے؟ ان لوگوں کے بارے میں بھی سیریس لکھا گیا جو ابھی وفاقی کابینہ میں ہیں، زیادہ تشویش تو اس پبلک آفس ہولڈر کو ہونا چاہیے تھا جو آج اس حکومت میں ہے، اس سارے کے ہوتے ہوئے ہم کیسے کہہ دیں کہ رپورٹ تعصب کی بنا پر تیاری کی گئی؟۔ آپ تو بینفشری ہیں آپ سیکنڈری ہیں پہلے تو پبلک آفس ہولڈر آتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چینی رپورٹ میں موجودہ حکومت کے ذمہ داران کو بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا، ملز مالکان تو فائدہ لینے والے ہیں، اصل مسئلہ تو عوامی عہدہ رکھنے والوں کو ہونا چاہیے، ذمہ دار قرار دیے گئے کسی حکومتی رکن نے چینی رپورٹ کو چیلنج نہیں کیا؟ ابھی تک پتہ نہیں نیب اس پر کارروائی کرتا بھی ہے یا نہیں، چینی رپورٹ اصل میں موجودہ حکومت اور نیب کا امتحان ہے۔
شوگر ملز مالکان کے وکیل مخدوم علی خان نے استدعا کی کہ چینی بحران پر نیا کمیشن تشکیل دیا جائے ، کابینہ کا الگ اور معاون خصوصی کا الگ فیصلہ ہوا، شہزاد اکبر کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کرائیں گے۔
عدالت نے کہا کہ کیا کابینہ اپنے اختیارات کسی اور کو دے سکتی ہے؟ عدالت نے مسابقتی کمیشن کیس کے فیصلے میں کہا ہے کہ کابینہ اپنا اختیار کسی کو نہیں دے سکتی۔
اٹارنی جنرل نے شہزاد اکبر کو انکوائری رپورٹ پر عمل درآمد کی ذمہ داری دینے کے فیصلے پر نظرثانی کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ میں حکومت کو ایڈوائس دیتا ہوں کہ وہ اس پر نظرثانی کرے۔