اسلام آباد: جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں پاناما عملدرآمد بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے تصویر لیک ہونے کے معاملے پر وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی درخواست مستر د کردی اور قرار دیا کہ جس شخص نے تصویر لیک کی اس کی نشاندہی ہو چکی ہے۔ حسین نواز کی جے آئی ٹی میں آڈیواور ویڈیو ریکارڈنگ کے حوالے سے درخواست پر بھی عدالت نے فیصلہ سنا دیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جے آئی ٹی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ویڈیواور آڈیو ریکارڈنگ کو ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا صرف ٹرانسکرپٹ کی درستگی کے لیے کی جا سکتی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ جے آئی ٹی کو تحفظات سے آزاد ہونا چاہیے۔ بینچ کے سربراہ نے کہا کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کام کر رہی ہے۔ اگر کسی کو اعتراض ہو تووہ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ ہم جواب داخل کرانے کیلئے مہینوں کا وقت نہیں دے سکتے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے کو میڈیا سرکل میں لانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ریاستی ادارے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے بجائے پریس میں خبریں چھپواتے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ میڈیا والے تو اخبارات اور ٹی وی چینلز پر فیصلے جاری کر چکے ہیں اگر ہم آج کی اخبارات دیکھیں تو پھر اٹارنی جنرل کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں