اسلام آباد: وفاقی وزیر سردار ایاز صادق نے کہاکہ نگران وزیر اعظم کا کردار محدودوہوتاہے۔سردار ایاز صادق نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہاکہ نگران وزیر اعظم کا کردار محدود ہوتا ہے۔ نگران وزیر اعظم کے نام کے بارے میں کہا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے در میان کسی نام کا ڈسکس نہیں ہوا۔ صرف کمیٹی کا فیصلہ ہوا ہےکہ سب بیٹھیں گے اورمشاورت سے فیصلہ کریں گے۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ 60 یا90 دن میں الیکشن ہونے چاہئیں ۔جو وقت پر ذمے داری پوری کرے اس کو نگران وزیرا عظم ہونا چاہئے۔ الیکشن کمیشن تاریخ دے گا نگران وزیر اعظم انتخابات ممکن کرائے گا۔ بیلٹ پیپر پر بلے کے نشان کے ہونے یا ہونے کے بارےمیں کہا کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔حال ہی میں سائفر کے معاملے میں اعظم خان کا بیان منظر عام پر آیا ہے ، یہ تکلیف دہ ہے۔
میں آرٹیکل6 کی بات نہیں کرتا ہوں۔ یہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہوسکتا ہے،مجھے چیئرمین پی ٹی آئی کی مشکلات بڑھتی نظر آرہی ہیں۔
انہوں نے مذاکرات اور پرویز خٹک کے بیان کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے چار بار الیکشن کا موقع ضائع کیا اور یہ ایک رازہے کے بارے میں سردار ایاز صادق نے کہاکہ میں نے اس بار ے میں گنا تو نہیں لیکن بہت بارچیئرمین پی ٹی آئی سے الیکشن کی بات کی گئی۔انہوں نے کہاکہ جن کے ساتھ مذاکرات ہوتے تھے وہ شائد بااختیار نہیں تھے ۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ2018 سے چلا۔ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو اس وقت بھی مذاکرات ہوئے ۔پرویز خٹک، اسد قیصر ، شاہ محمود قریشی، یوسف رضاگیلانی اور دیگر بہت سے لوگ مذاکراتی کمیٹی میں تھے۔
ہم بات کرکے مسائل حل کرنا چاہتے تھے ملک کونقصان ہورہا تھا۔پی ٹی آئی والے پوچھنے والے جاتے تھے پھر واپس نہیں آتے تھے ۔
فیئر اینڈ فری الیکشن، دہشت گردی پر بات پراتفاق رائے ہوگیا تھا اوروہ بھی رضامند ہوگئے تھے لیکن آرمی چیف کی تقرری پر ہم نہیں مانے ۔ وہ تین نام دینا چاہتے تھے اوراس میں سے ایک کے انتخاب کی بات کی لیکن ہم نے یہ کہا کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں ۔سردار ایاز صادق نے کہاکہ ذاتیات آڑے آئیں اور مذاکرات نہیں ہوسکتے۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ن لیگ کا کسی سے اتحاد ہوگا یا نہیں اس پر یہ کہوں گا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ شائد ہوجائے لیکن کسی کے ساتھ مل کر الیکشن نہیں لڑیں گے۔ ہماری سیٹ ایڈجسٹمنٹ کسی بھی پارٹی کے ساتھ ہوسکتی ہے ۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ استحکام پارٹی یا پرویز خٹک کی پارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالےسے بات نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان، ایم کیو ایم کسی سے استحکام پاکستان پارٹی اورپرویز خٹک کی سیاسی پارٹی کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔
انتخابی اصلاحا ت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے سیکریسی کو مد نظر رکھا ہے۔
انتخابی اصلاحات میں اتفاق رائے کے حوالے سے کہا کہ پی ٹی آئی کے علی ظفر بھی شامل تھے۔وہ میٹنگ میں زیاد ہ تر خاموش تھے۔ان کو خدشات تھے کہ شائدکسی سیاسی جماعت پر پابندی لگ جائے گی لیکن ان کی توقعات کے برعکس ہوا اور علی ظفر نے کہا کہ میں نے جس چیز پر بات کرنی تھی آپ نے پہلے سے ہی اس پر کام کردیا ہے۔ آنے والے انتخابات میں آر ٹی ایس نہیں بیٹھے گا۔
ان کاکہنا تھا کہ ہم نے اصلاحات میں فیصلہ کیا ہے کہ رات دو بجے تک پولنگ کے نتائج پہنچ جانے چاہئیں۔ پریذائڈنگ افسر اب انیس بیس تو بہت مشکل سے کرسکے گا لیکن وہ پندرہ بیس نہیں کرسکےگا۔سکیورٹی آفیسر باہر ہوں گے اور اگرکوئ لڑئی جھگڑا ہوتو وہ اندرآسکیں گے۔ انتخابی اصلاحات کا مقصد دھاندلی کو روکنا ہے۔نگران وزیر اعظم کے بارے میں یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ وقت پر چلا جائے۔