ضمنی الیکشن کے حیران کُن نتائج ملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل کرنے کا باعث بننے کے قریب ہیں نتائج اِس وجہ سے حیران کُن ہیں کہ پی ٹی آئی اتنی نشستیں حاصل کر لے گی یہ کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا یہ درست ہے کہ جن نشستوں پر انتخاب ہوا ہے وہ الیکشن کمیشن نے ایسے ارکین کے منحرف ہونے کی وجہ سے خالی قرار دی تھیں جن کا پی ٹی آئی سے تعلق تھا لیکن اِن میں اکثریت عام انتخابات میں بطور آزاد امیدوار منتخب ہوکر بعد میں پی ٹی آئی میں شامل ہوئی اسی لیے ن لیگ کے بارے عام گمان یہ تھا کہ چوںکہ یہ پنجاب کی سب سے مقبول جماعت ہے نیز لاہور اِس کا گڑھ ہے اس لیے یہ اپوزیشن کی کئی نشستیں حکمران جماعت لے جائے گی مگر لاہور کی چارنشستوں میں سے تین سمیت پنجاب کی کُل بیس میں سے پندرہ پر بلے کا نشان رکھنے والے امیدوار کامیاب ہوئے تو سیاسی پنڈت ششدررہ گئے نتائج نے پنجاب میں حکومتی تبدیلی کی بنیادرکھ دی ہے تو ساتھ ہی وفاقی حکومت کی مدتِ اقتدار بارے بھی اب چہ مگوئیاں ہونے لگی ہیں عام قیاس یہ ہے کہ اب عام انتخابات کی منزل شاید زیادہ دور نہیں رہے گی کیونکہ پی ڈی ایم کا محض وفاقی دارالحکومت میں سی ڈی اے پراقتدار رہ جائے گا اٹھارویں ترمیم سے صوبائی اختیارات میں مزید اضافہ اور وفاقی اختیارات میں مزید کمی آئی ہے چاروں صوبوں میں مخالف حکومتوں کے بعد شہبازشریف وزیراعظم کا نمائشی عہدہ رکھنے کی بجائے عام انتخابات کی طرف جانا زیادہ مناسب سمجھیں گے عام انتخابات کی قیاس آرائیوں کو چوہدری پرویز الٰہی کے اِس موقف سے بھی تقویت ملتی ہے کہ عمران خان کے کہنے پر دو سیکنڈ میں اسمبلی تحلیل کر دیں گے عمران خان تو چاہتے ہی فوری عام انتخابات ہیں اسی لیے سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ موجودہ اسمبلیاں شاید ہی مدت پوری کریں بلکہ قبل ازوقت عام انتخابات ہو سکتے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سے عمران خان فوری استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں حالانکہ ضمنی انتخابات میں بے مثال کامیابی کے بعد اُن کا لب ولہجہ نرم ہوجانا چاہئے تھا مگر ایسا نہیں ہوابلکہ جیت کے بعد موقف میں سختی آئی ہے بظاہراِس کی وجہ یہ ہے کہ بیرونی عطیات کا کیس ثابت ہوچکا اب صرف فیصلہ سناناباقی ہے ذرائع کاتو کہنا تھا کہ ضمنی انتخاب سترہ جولائی سے چنددن قبل اِس کیس کا فیصلہ سنا دیا جائے گاجس سے نہ صرف پی ٹی آئی بطورجماعت کالعدم ہوجائے گی بلکہ انتخابی نشان بلا بھی نہیں رہے گا لیکن ایسا کیوں نہ ہوا؟ابھی تک اِس سوال کا جواب کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا عمران خان کے لب ولہجے میں موجودہ شدت و تلخی کو اسی پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے لیکن یہ اندازہ درست ہے کہ ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی حیران کُن کامیابی سے کپتان کو نیا حوصلہ اور اعتماد ملا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ مقبولیت کی انتہا پر ہیں لیکن ہمارے ملک کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جسے بھی مقبولیت کا زعم ہوا وہ تاریخ کے اوراق میں گم ہوجاتا ہے ۔
سیاسی منظر نامہ تبدیل کرنے کی بنیادبننے والے ضمنی الیکشن کو شفافیت اور غیرجانبداری کے حوالے سے دیکھا جائے تو صورتحال اچھی نظر نہیں آتی پولیس ہو یا الیکشن عملہ،سبھی جانبدارنظر آئے چیچہ
وطنی میں میجر ر غلام سرور کے حمایتیوں کا انتظامیہ نے ناطقہ بندکیے رکھا خاص کر چک نمبر79 میں پی ٹی آئی کی اکثریت دیکھ کر خوف وہراس پھیلایا گیا نوے موڑ پر پی ٹی آئی کے جھنڈوں والی گاڑیوں کو روکنے کی کوشش کی جاتی رہی تاکہ ووٹرز کو پولنگ اسٹیشنوں تک نہ پہنچا سکیںلاہور فیروز پور روڈ پر یونین کونسل نمبر 230 اور 231 کے اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر ن لیگ کے امیدوار کو بیلٹ بکسوں تک ایک سے زائد بار نہ صرف رسائی دی گئی بلکہ اِس دوران پی ٹی آئی کے امیدوار شبیر گجر کے پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا گیا مین مارکیٹ گلبرگ میکڈونلڈ کے قریب خواتین پولنگ اسٹیشن کی پریزائیڈنگ آفیسر نے پولنگ شروع ہونے سے قبل ہی نتیجہ جاری کرنے کے فارم نمبر45پر پی ٹی آئی کے امیدوار کی پولنگ ایجنٹس سے دستخط کرا لئے گئے اسی طرح وفاقی کالونی کے پولنگ اسٹیشنوں پر بلے کانشان والی پرچیاں رکھنے والوں کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکا جاتا رہاووٹ کاسٹ کرنے سے روکنے میں ایس ایچ اوتھانہ جوہر ٹائون عاطف ذوالفقار پیش پیش رہے جو ووٹر منع کرنے کے باوجود ووٹ کاسٹ کرنے کی ضدکرتا انھیں ایس ایچ او نے تھانہ میں پولنگ کاوقت ختم ہونے تک بندبھی رکھا ووٹروں کے علاوہ باہر پولنگ کیمپ میںبیٹھے کارکنوں کو بھی اُٹھا لیا گیا ایسا کرنے سے اگر کسی نے منع کیا تو بڑے فخر سے جواب میں کہتے کہ میں سی پی او لاہور کاخاص بندہ ہوں علاوہ ازیں سانحہ ماڈل ٹائون کے قتلِ عام میں بھی میرا کلیدی کردار ہے شکایت پر اِس غنڈہ گردی کے خلاف ڈی ایس پی نے ایکشن لینے سے یہ کہہ کرصاف انکاردیا کہ خود سر ایس ایچ او میری نہیں سنتا اگر کچھ کہا تو وہ سی پی او سے شکایت لگا کر میراتبادلہ کر اسکتاہے متعلقہ اے ایس پی نے بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا گرفتار سیاسی کارکنوں کو بعدازاں غروبِ آفتاب کے بعد حوالات سے نکالا گیااسی بناپر کہہ سکتے ہیں کہ پولنگ عملے نے پی ٹی آئی کے ووٹرز کوہر ممکن طریقہ سے ووٹ کاسٹ کرنے سے روکنے کی کوشش کی ریاستی مشینری ووٹرز کوآزدانہ ماحول فراہم کرنے کی بجائے ہراساں کرنے میں مصروف دکھائی دی یہ کہنا کہ ضمنی الیکشن میں انتظامیہ غیر جانبدار رہی اور شفاف الیکشن ہوئے ہیں درست نہیں شفاف اور پُر امن الیکشن کرانے کی ذمہ داری دانستہ طور پر پوری نہیں کی گئی پھر بھی ن لیگ کے امیدواروں کاناکامی سے دوچار ہونا ثابت کرتا ہے کہ پنجاب ہاتھ سے نکل رہاہے۔
ن لیگ کیوں شکست سے دوچارہوئی اِس کی وجوہات جاننا مشکل نہیں پیٹرول کی باربار قیمتیں بڑھانا اور بجلی کا بحران اُسے لے ڈوبا ہے اگر یہ جماعت اقتدار میں آنے کا احمقانہ فیصلہ نہ کرتی تو آج مقبولیت کے حوالے سے ایسے حالات نہ ہوتے آصف زرداری نے شہباز شریف کو وزیرِ اعظم بنواکر اُنھیں ایسے چوراہے پر بٹھا دیا ہے جہاں سے ہر گزرنے والے کی نفرت سمیٹ رہے ہیں یہی نفرت پی ٹی آئی سے منحرف ہونے والوں کو ڈبونے کا باعث بنی ہے اٹھارہ منحرف اراکین کو شکست اور صرف دو کو کامیابی ملنا مہنگائی کا شاخسانہ ہے یہ ایک بڑا ہی اِپ سیٹ ہے آئندہ مالی نفع کے عوض وفاداریاں بدلنے کی روایت کا اگر خاتمہ نہیں تو بڑی حد تک کمی آ نے کابھی امکان ہے۔
اگر جائزہ لیں کہ حکومت اور اپوزیشن میں سے کِس کا بیانیہ کامیاب ہوا ہے تو اِس میں کوئی شائبہ نہیں کہ عمران خان کے بیانیے بیرونی مداخلت اور مافیاز کو عوام نے قبول کر لیا ہے جواب میں جہاندیدہ شہبازشریف نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش ہی نہیں کی بھکاری کے پاس چوائس نہ ہونا ،تیل اور روزمرہ کی اشیا کے نرخ بڑھانے جیسے فیصلے موجودہ صورتحال کا باعث ہیں نیز عام آدمی سمجھتا ہے کہ عمران خان کو غلط طریقے سے اقتدار سے بے دخل کیا گیا ہے عمران خان نے خود کو مظلوم ثابت کردیا لیکن مریم نواز،رانا ثنا اللہ ،عطا اللہ تارڑ،عابد شیر علی ،خواجہ آصف اور مریم اوررنگزیب جیسوں کا رعونت آمیز لہجہ حکمرانوں کو ظالم ثابت کرنے میں مددگار ثابت ہوا ضمنی الیکشن کے نتائج نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ لوگوں میں اتنا سیاسی شعور آگیا ہے جس کے بعد اپنے نمائندے کا چنائو کرنے سے لیکر محاسبہ کرسکتے ہیں وہ اب لکیر کے فقیر ووٹرنہیں رہے اسی بناپرسیاسی منظر نامہ تبدیل آنے کی نوبت آگئی ہے اور آئندہ عام انتخابات کے نتائج کی جھلک بھی نظر آنے لگی ہے سیاسی قیادت موجودہ تنائو کا خاتمہ چاہتی ہے تو غیر جانبدار چیف الیکشن کمشنر بنا کر آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ماحوال میں ایسے انتخابات کرائے جس کے نتائج سب قبول کریں سیاسی مسائل کا حل اسی طرح ممکن ہے آپ کیا فرماتے ہیں بیچ اِس مسئلہ کے ؟۔