شاہدرہ سے شبیر صاحب کہ دیرینہ قاری ہیں، ایک ناتے سے عزیز بھی ہیں اور عمدہ ذوقِ شعر و سخن و فلسفہ رکھتے ہیں، واٹس ایپ پر خاصی مداراتِ افکار کیے رکھتے ہیں۔ مغربی فلاسفہ کے افکار بڑی فراخدلی سے ارسال کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک سوال کرتے ہیں، سوال کی نوعیت جاننے کی غرض سے ان کا سوال من و عن نقل کر رہا ہوں ’’انسانی شعور ارتقا پذیر ہے۔ مذہب بھی انسانی شعور کا ایک حصہ ہے اس لیے مذہب بھی اسی ارتقا کا حصہ ہے۔ مذہب نے ہمیں اس اصول سے متعارف کرایا کہ ہر کوئی قانون کے تابع ہے، چاہے وہ کتنا امی یا اعلیٰ مرتبے پر فائز ہی کیوں نہ ہو اور یہ کہ سب لوگ برابر ہیں۔ بہتر وہ ہے جو دوسروں کے کام آئے۔ مذہب نے بھی ارتقائی منازل طے کی ہیں اور اپنی ارتقائی منازل طے کرتا ہوا موجودہ دور میں داخل ہو چکا ہے۔ اب ہم اسے ایک نئے نام سے جانتے ہیں، اب یہ سیاست اور قانون کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے، یا یوں کہہ لیں کہ مذہب کی تعلیمات اور اس کے قوانین کی حفاظت اب سیاست کر رہی ہے اور یہ نئے دور کے تقاضوں اور قوانین کے مطابق ہے۔ اس سلسلے میں آپ کی رائے باعثِ عزت و برکت ہو گی‘‘۔
کچھ تو یہ ہوا کہ اپنی سی رائے دینے میں کچھ روز تساہل سے کام لیا اور کچھ یوں بھی ہوا کہ ان کی طرف سے ارسال کردہ ایک مشہور صوفی نما ادیب کی تحریری اقتباس میں لفظ ’’حیرت‘‘ کی تعریف پڑھ کر قدرے حیرت ہوئی کہ حیرت، محبت اور نفرت کو موصوف نے ایک ہی سانس میں لکھا ہوا تھا۔ جب حیرت کی بابت ان کی بات سے عدم اتفاق کیا اور کچھ بتانے کی کوشش کی، محبت شعور کا ایک اعلیٰ درجہ ہے اور حیرت تو حیرت در حیرت ہونی اور یہ اپنی اصل میں ابتدائے معرفت ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا قولِ معرفت ہے کہ ’’معرفت ہمہ حال تحیر میں رہنے کا نام ہے‘‘ اس بات پر وہ دفاعی انداز اختیار کرتے ہوئے جواب میں کہتے ہیں ’’میں نے انہیں کافی پڑھا ہے، آپ کا مجھے علم نہیں کہ محترم واصف صاحب کے علاوہ بھی آپ نے کسی کو پڑھا ہے کہ نہیں‘‘ اس پر باامرِ مجبوری اس فقیر کو بچپن سے جوانی تک اپنے مطالعہ جات کی بابت کچھ بتانا پڑا کہ ’’اس خاکسار نے برصغیر کے لکھاریوں میں سے منٹو، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، فیض، علی عباس جلالپوری، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر سلیم اختر، انور سدید، اشفاق احمد، بانو قدسیہ اور قدرت اللہ شہاب ایسے لکھاریوں کو خوب کرید کرید کر پڑھا ہے۔ کالج کے زمانے میں ممتاز مفتی لفظ بہ لفظ پڑھا، یہاں ’’سمے کا بندھن‘‘ نے اک سماں باندھ دیا تھا، گزشتہ کالم کے آخری پیرا میں اس کا ذکر بھی تھا۔ غیر ملکی ادب میں پال برنٹن کی Wisdom of overself نے کافی دیر تک اپنے سحر میں باندھے رکھا، بچپن خلیل جبران کے ساتھ خوب گزرا، نیل Neil کی Conversation with God کے ساتھ بھی کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا، ول درانت کی ’’اے ہسٹری آف فلاسفی‘‘ اور آگسٹن جارڈن کی Sophie's World نے کچھ دیر تک مزہ دیا،
ایف ایس سی کے زمانے تک ژاں پال سارتر کے فلسفہ لایعنیت نے کافی دیر تک الجھائے رکھا— اور پھر یہ ہوا کہ — کرم ہو گیا — اور مرشد سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے ’’کشف المحجوب‘‘ کا پتہ دیا اور ’’کشف المحجوب‘‘ کے ایک جملے نے فلسفہ لایعنیت کو بیچ چوارہے میں الف ننگا کر دیا، اس کے بعد سے پھر سارتر کے ساتھ وقت ضائع نہیں کیا۔ پاؤلو کوہلو طفلِ مکتب ہے، بس ’’الکیمسٹ‘‘ نے اس کی گڈی چڑھا دی ہے، بچہ پارٹی پڑھے جا رہی ہے اور سر دھنے جا رہے ہیں، اچھی بات ہے، کچھ نہ پڑھنے سے کچھ پڑھ لینا بہتر ہے‘‘۔
اب آتے ہیں آپ کے اصل سوال کی طرف، تسلی رکھیں یہ فقیر ان سب وادیوں سے گزرنے کے بعد آپ کے سوال کی طرف متوجہ ہو رہا ہے۔ آپ نے جس مذہب کے عدل و انصاف اور قانون کی بالادستی کے پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ صرف اسلام ہے۔ اہلِ یہود غیر یہودی کو ’’گوئم‘‘ (بمعنی مویشی) کہتے ہیں، اہلِ ہنود برہمن اور شودر کو الگ جنس سمجھتے ہیں۔ اس لیے کم از ان دو مذاہب میں ’’قانون سب کے لیے‘‘ کا تصور مفقود ہے۔ یہ تصور درست نہیں کہ تمام مذاہب اپنے ماننے والوں کو عدل و انصاف اور قانون کی بالادستی کا لازمی تصور دیتے ہیں۔ اگر ریاست اور قانون مذہب کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہوتے تو قبل از اسلام اور عیسائیت قدیم یونان میں سپارٹا اور ایتھنز کی ریاستوں نے اپنے ہاں فلاسفہ کے افکار کی مدد سے قانون اور جمہوریت رائج کر لی تھی، لیکن مذہب کی ضرورت ہنوز باقی تھی۔
مذہب بنیادی طور پر مابعدالطبیعات سے متعلق ہوتا ہے۔ فلاسفر بھی کہتے ہیں کہ مذہب فلسفے کی ماں ہے، ماں کو اپنے جنے ہووؤں کے دانت گننے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سچ تو یہ ہے کہ مذہب کی تمام تر توجہ ظاہر کی نسبت باطن پر زیادہ مرکوز ہوتی ہے۔ مذاہبِ عالم صرف اخلاقیات اور نظامِ معاشرت تک محدود نہیں بلکہ مناجات و عبادات اور پھر معبودِ مطلق سے لقاء و ملاقات کی بات بھی کرتے ہیں۔ مذاہبِ عالم ایک شخصی خدا کے قائل ہوتے ہیں اور فرد کا رابطہ اس خدا سے کرانے کا دعویٰ بھی رکھتے ہیں۔ مذہب انسان کے شعوری ارتقا کا نتیجہ نہیں بلکہ انسانی شعور کا ارتقا مذہب کا کرشمہ ہے۔ اگر ہم شخصی خدا کا انکار کرنے کے بعد مذاہبِ عالم کا مطالعہ کریں تو اسی پلیٹ فارم پر پہنچتے ہیں جس پلیٹ فارم سے محترم شبیر صاحب نے سوال داغا ہے۔
اب اس کے بعد جب ہم مذہب کی بات کریں گے تو اس سے مراد دینِ اسلام ہو گا۔ دینِ اسلام اگرچہ اخلاقیات اور حسنِ معاشرت پر زیادہ توجہ دیتا ہے، لیکن یہاں بھی اس کی توجہ معاشی اور معاشرتی کامیابی سے کہیں زیادہ انفرادی فلاح پر مرکوز ہے۔ مثلاً دینِ اسلام کو ماننے والا اگر اپنی زندگی میں عدل و انصاف پر مبنی معاشرتی نظام قائم نہ بھی کر سکے تو وہ انفرادی طور پر فلاح یافتہ ہو سکتا ہے، اور اس کے برعکس ایک مسلمان اگر قانون کی بالادستی والا انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے لیکن اپنے نفس کا تزکیہ اور روحانی بالیدگی حاصل کرنے میں ناکام رہ جاتا ہے تو اس کی تنہائی، قبر اور عاقبت روشن نہیں ہو گی۔ یہ بنیادی فرق ہے، ظاہر اور باطن کے حقائق میں۔ معاشرے میں قانون کا نفاذ جرائم کو روکتا ہے، گناہوں کو نہیں۔ جرائم کا تعین ملکی قانون کرتا ہے اور گناہوں کا حساب اور احتساب مذہب بھیجنے والی ذات کرتی ہے۔
دین بنیادی طور پر ہمیں ظاہر سے زیادہ باطنی علوم کی خبر دیتا ہے، غیب کے عالم پر مطلع کرتا ہے۔ غیب وہ عالم ہے جو ہمارے حواسِ خمسہ بشمول تمام آلات Gadgets جو ہمارے حواس کو حساس کرتے ہیں کی گرفت میں نہیں آتا، اور ہماری قوتِ مدرکہ کے دائرہ ادراک سے بھی باہر ہے، مثلاً دوزخ ، جنت، پل صراط ، میزان اور پھر خود خدا ایسے غیبی حقائق ہیں جو ہماری قوتِ مدرکہ اور متخیلہ دونوں سے باہر ہیں۔ ان غیبی حقائق کی اطلاع ہمیں صرف اور صرف نبی کریمؐ کی ذاتِ بابرکات سے میسر آتی ہے، اسی اطلاع پر یقین کا نام ایمان ہے۔ لفظ نبی کا لغوی مطلب خبر دینے والا ہے اور اصطلاحی معنی ہیں ’’غیب کی خبر دینے والا‘‘۔ جو لوگ مذہب کو صرف قانون سمجھتے ہیں ان کا شعور شریعتِ موسوی تک محدود ہیں، وہ محض Ten commandments بمعنی اوامر و نواہی کو مکمل دین سمجھ بیٹھے ہیں۔ جو لوگ مذہب سے مراد صرف پیغامِ محبت اور خدمت لیتے ہیں وہ شعوری طور پر دورِ عیسوی میں زندہ ہیں۔ اسلام عدل، انصاف، خدمتِ انسانیت اور محبت کے ساتھ ساتھ اخلاص اور احسان کے افق کا مشاہدہ بھی کراتا ہے۔
یہاں اس بات کی جانب توجہ مبذول کرانا بھی ضروری ہے کہ ہر دور میں مذہب ایک رہا ہے اور وہ اسلام ہے۔ آدم تا ایں دم دین اسلام ہی ہے۔ اگر قوانینِ فطرت میں ارتقا نہیں تو دینِ فطرت میں بھی ارتقا نہیں۔ دراصل انسانی جبلتوں کا ارتقا صفر ہے، اس لیے دین کے قوانین بھی اٹل ہیں۔ انسانی سیاست اور انسان کے بنائے ہوئے قوانین فرسودہ ہو جاتے ہیں، انہیں ہر دور میں نئی زندگی چاہیے ہوتی ہے۔ کم فہمی و کم نظری میں ہم مذاہبِ عالم کی ہیئت ظاہری میں تبدیلیوں کو ارتقا کا نام دے رہے ہیں، دراں حالاں کہ یہ انسانی فہم کا ارتقا ہے۔ شعورِ انسانی نے دین ایسے بلند تر قانونِ فطرت کو ہر دَور میں اپنے فہم و شعور کے مطابق سمجھا۔ انسان فطرت سے بلند تر پیدا کیا گیا ہے، اس لیے اس کے لیے فطرت سے ماورا قانون کی بھی ضرورت ہے— جیسے وحی، معجزہ، حشر نشر اور حساب کتاب۔ انسان اگر صرف جسم ہوتا تو اسے سدھارنے کے لیے معاشی و معاشرتی قوانین ہی کافی تھے، لیکن یہ جسم کی سواری کے اوپر نفس اور روح بھی اٹھائے پھرتا ہے۔ اس لیے اسے ایک ایسے ضابطہ حیات کی بھی ضرورت ہے جو اس کے نفس کا تزکیہ اور روح کا تجلیہ کر سکے۔ اسے قانون کے ساتھ ساتھ اپنی روح کو روشن کر دینے والے کچھ رسومِ عبودیت کی بھی ضرورت ہے تاکہ یہ اپنی تنہائی، قبر، موت اور پھر موت کے بعد کا منظر خوشنما بنا سکے۔ اسلام اس لیے مکمل دین ہے کہ اسے لانے والی ہستی کامل اور اکمل ہے— انسانِ کاملؐ!