کسی شاعر کا شعر ہے:
قربانیانِ عشق کا میلا لگا رہے
ہر روز جشنِ عید الٰہی بپا رہے
سو ہر سال کی طرح اس سال بھی بڑے شہروں کی مقرر کردہ منڈیوں میں ”قربانیانِ عشق“ کا میلا لگا ہوا ہے۔ رنگ برنگے مینڈھوں، بکروں، دنبوں، بیلوں، اونٹوں کی بہار آئی ہوئی ہے گو کہ یہ بہار موجودہ وبا کے ہاتھوں کچھ گہنا سی گئی ہے مگر پھر بھی سنتِ ابراہیمی کی پیروی میں قربانی کے جانوروں کے انتخاب اور بھاؤ تاؤ کی گرم بازاری بہرحال دیکھی جا سکتی ہے۔ مجھے اپنے بچپن کے زمانے کی عیدیں اور جوش و خروش یاد آتا ہے۔ بڑی عید کی آمد سے ہفتے دو ہفتے پہلے ہی قربانی کے جانور خرید لیے جاتے تھے۔ زیادہ تر مینڈھوں اور بکروں کی قربانی کا رواج تھا۔ ایک رواج یہ بھی تھا کہ عید قربان کے فوراً بعد مینڈھوں اور بکروں کے برّے اور بچے سستے داموں خرید لیے جاتے تھے، سارا سال انہیں پالا جاتا تھا، تاآنکہ وہ اگلی عید کے لیے پل بڑھ کر خوب تیار ہو جاتے تھے۔ انہیں بالکل اپنے بچوں ہی کی طرح پالا پوسا جاتا تھا۔ ان کی ناز برداریاں ہوتی تھیں۔ عید سے کچھ دن پہلے انہیں خوب مل مل کر نہلایا جاتا تھا۔ ان کے سفید براق اونی جسموں پر مہندی سے خوب صورت نقش و نگار بنائے جاتے تھے۔ گلے میں گھنگھرو اور پاؤں میں چھن چھن بجتی پازیبیں ڈالی جاتی تھیں۔ بچے بالے انہیں کھیتوں باغوں میں جن کی گاؤں قصبوں میں تب بہتات ہوتی تھی، ٹہلاتے پھراتے رہتے اور اپنے دوستوں یاروں کی منڈلی میں ان کے ہمراہ اہلے گہلے بھاگتے پھرتے۔ کیا خوش وقتی اور نشاط کا زمانہ تھا۔ بعض لوگ قربانی کے لیے خریدے گئے کم عمر مینڈھوں اور میمنوں کو مناسب معاوضے پر اپنے جاننے والے گڈریوں کی تحویل میں دے دیتے تھے جو انہیں سال بھر چراتے پھراتے اور قربانی کی آمد سے ایک ڈیڑھ ہفتہ پہلے ان کے مالکوں کو لوٹا دیتے تھے۔ کبھی کبھی لڑکے بالے اپنے اپنے مینڈھوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر کے بازی اور لڑائی کی دلچسپ صورت پیدا کر دیتے تھے گویا کہہ رہے ہوں:
ذرا تم اپنے مینڈھے کو نکالو
مرے ”چیتے“ سے ایک ٹکر لڑا لو!
مگر اب تو یہ سب کچھ تقریباً ماضی کا قصہ ہو کر رہ گیا ہے۔ مشین نے بچے سے معصومیت چھین لی اور بدلے میں یہ کہہ کر موبائل تھما دیا کہ: لے اور شہنشاہی کر!
عیدِ قربان کا دن جہاں خوشی کا دن ہوتا تھا وہاں معصوم بچوں کے لیے کسی قدر غم بھی لے کے آتا تھا کہ ان کے سامنے ان کا محبوب پالتو جانور چشم زدن میں خاک و خون میں لوٹتا تھا اور وہ اپنے آنسو روک نہیں پاتے تھے۔ یہ صورت حال ان کی تہذیب کے لیے ضروری بھی تو تھی۔ انہیں زبانِ حال سے یہ بتایا جاتا تھا کہ: شادی اور غم دو جڑواں بہن بھائی ہیں اور اس دنیا میں دونوں کا وجود ناگزیر ہے! رہا حضرتِ اسماعیلؑ کی سعادت مندی کا قصہ تو وہ انہیں پہلے سے ازبر ہوتا تھا۔
عیدالاضحیٰ نے ہمارے شاعروں کے تخیل میں بھی خوب جگہ بنائے رکھی ہے، یوں ہمارے شعری سرمائے میں بعض لفظوں، رعایتوں اور تر کیبوں کا بہت چلن ہوا جیسے ذبح، ذبح گاہ، مقتل، زیرِ پا، اللہ اکبر، تکبیر، ذبحِ عظیم، قربانی اور صیاد وغیرہ۔ سو اب ہم اپنے قارئین کو اس ضمن میں بعض دلچسپ شعر سناتے ہیں۔ قارئین دیکھیں گے کہ بعض شعر تو بعض
دوسرے شعروں کا عمدہ اور مسکت جواب لگتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ شاعر بعض اوقات لفظوں سے کھیلتا ہے اور شوخیاں کرتا ہے۔ محبوب کے آستانے کو قربان گاہ، اپنے آپ کو اس مقتل میں قربان ہوتے دکھاتا ہے، جھوٹ موٹ کی حیرت کا اظہار کرتا ہے اور کہہ اٹھتا ہے:
یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروزِ عیدِ قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
لگتا ہے کہ انشا کے اس شعر کا بڑا خاموش کن جواب بہادر شاہ ظفر کے ملک الشعراء استاد ذوق نے دیا ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ ذوق کا نام ابراہیم ہے اور وہ سنتِ ابراہیمی کو اس پیرایے میں بیان کرتے ہیں گویا لفظوں سے ایک جیتی جاگتی تصویر کھینچ دیتے ہیں۔ اور یہ تو قارئین کو معلوم ہی ہے کہ ذبح کے وقت تکبیر پڑھی جاتی ہے۔ کیسی کیسی رعایتیں شاعر نے اس ایک شعر میں رکھ دی ہیں: ذبح، زیرپا، اللہ اکبر اور ذبح ہو کر لوٹنا تڑپنا:
سر بہ وقتِ ذبح اپنا اس کے زیرِ پائے ہے
یہ نصیب اللہُ اکبر، لوٹنے کی جائے ہے
اس شعر سے کسی فارسی شاعر کا ایک بڑا اچھا شعر بھی یاد آتا ہے: مرا کُشتی و تکبیرے نگفتی/ عجب سنگیں دلی، اللہُ اکبر (اے محبوب! تم نے مجھے ذبح کیا اور تکبیر نہ پڑھی، گویا مجھے حرا م کر دیا۔ اللہ اکبر، تم کتنے سنگ دل ہو)۔ یاد رہے کہ اللہ اکبر کہنا تکبیر بھی ہے اور اردو اور فارسی شاعری میں کلمہ تعجب بھی۔ شاعروں کے نزدیک ذبح ہونے کا عمل دراصل شہادت کا مرتبہ رکھتا ہے اور شہادت کیا ہے: اللہ کی کبریائی کی گواہی۔ صرف دو شعر دیکھیے:
ہم عاشقوں سے رتبہ شہادت کا پوچھیے
جس دن چھری گلے سے ملی ہم نے عید کی
قاتل کے خط سے قتل کا ہوتا نہ کیوں یقیں
عنوانِ نامہ آیہ ذبحِ عظیم تھا
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ”ذبحِ عظیم“ قرآنی تلمیح ہے: وفدیناہُ بذبحٍ عظیم۔
اور میر کا یہ بے مثل شعر تو بھلائے نہیں بھولتا:
معرکہ گرم تو ٹک ہونے دو خوں ریزی کا
پہلے تلوار کے نیچے ہمیں جا بیٹھیں گے!
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہماری شاعری میں مقتل، مشہد، قاتل، خوں ریزی، شہادت اور تکبیر کا اس تواتر سے ذکر بے محل نہیں۔ دراصل عیدِ قربان مسلم شعرا کے نزدیک صرف ایک مذہبی رسم نہیں، ایک زندہ علامت تھی، اپنے نفس کی قربانی اور احساسِ غیرت و حریت کی۔ شاید مسلمان شعرا کے تحت الشعور میں یہ حقیقت کہیں نہ کہیں موجود رہی ہو گی کہ اس دورِ زوال میں ہم بہت سے فضائل بھلا بیٹھے ہیں اور جہاد اور مقاومت کی روح ہم میں باقی نہیں رہی جو قوموں کی اجتماعی خودی اور بقا کے لیے ضروری ہے۔ اقبال کے ہاں یہ احساس سب سے توانا تھا۔ تبھی تو انہوں نے تأسف بھرے لہجے میں کہا تھا:
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تُو باقی نہیں ہے
المیہ یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں تو قربانی و حج بھی زوال آمادہ ہیں۔ اخبار بتاتے ہیں کہ اس سال صرف ساٹھ ہزار مقامی عرب حج کا فریضہ بجا لا رہے ہیں۔ ہر سال لاکھوں فرزندانِ توحید کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر بتدریج گھٹ کر صرف ہزاروں تک آ گیا ہے۔ یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
تعداد سے ہٹ کر دیکھیں تو ہماری مذہبی روح بھی روبہ زوال ہے اور یہ المیہ ایک عرصے سے ہمیں گھن کی طرح چاٹ رہا ہے۔ سیکڑوں سال پہلے کے نامور فارسی شاعر ناصر خسرو کا ایک منظومہ یاد آئے بغیر نہیں رہتا جس میں اس نے اپنے ایک حاجی دوست سے بڑے چبھتے ہوئے سوال کیے تھے جو تازہ تازہ حج کر کے لوٹا تھا: ”یہ تو بتاؤ اس مقدس سرزمین میں تم نے حج کے مناسک کس طرح ادا کیے۔ جب تم نے عام لباس تج کر احرام پہنا تو تمہارے کیا تاثرات تھے؟ کیا تم ان تمام حرام باتوں سے بچتے رہے جن سے منع کیا گیا ہے؟ کیا تم نے عجز و تسلیم کا وہی انداز اپنایا تھا جو حضرت ابراہیمؑ نے اختیار کیا تھا۔ کیا میدانِ عرفات میں تم اللہ کے عارف اور اپنے منکر ہونے کے تجربے سے گزرے۔ کیا حرم میں داخل ہوتے وقت تم نے اپنی انانیت کو اصحابِ کہف کی طرح تج دیا تھا؟ کیا تم نے جانور کی قربانی کرتے وقت اپنے نفسِ امّارہ کو بھی ذبح کیا؟ اب جبکہ تم کعبے سے لوٹ آئے ہو کیا تم اپنا نفس ِ دنی دفن کر کے آئے ہو اور کیا تم دوبارہ کعبہ جانے کے لیے بے قرار ہو؟“ جب دوست نے ان سب سوالوں کا جواب نفی میں دیا تو ناصر خسرو کو کہنا پڑا: افسوس کہ تم نے اپنا پیسہ اور وقت برباد کیا اور حج کی سعادت سے محروم رہے۔
سورۃ حج میں ذاتِ حق کا یہ ارشاد کس قدر قابلِ توجہ ہے: اللہ تک ان (ذبح ہونے والے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون۔ ہاں اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ بدقسمتی سے تقوے کی یہی نعمت ہے جس سے مسلمان الا ماشاء اللہ تہی دست ہیں:
رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالیؓ نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالیؒ نہ رہی