ہماری قومی سیاست میں جو نئی روایات متعارف ہو رہی ہیں ان کو سیاستدانوں تک رکھنا ممکن نہیں۔ یہ رجحانات آہستہ آہستہ ہمارے کلچر کا حصہ بن رہے ہیں۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ جولوگ قومی منظرنامے پر چھائے ہوئے ہوتے ہیں عام لوگ انہیں قدرتی طور پر کاپی کرتے ہیں لیڈرز کو معاشرے میں Trend Setter کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ لوگ ان کے لباس ان کے انداز ان کے طرز گفتگو کی کاپی کرتے ہیں ان کے جملے حوالہ بن جاتے ہیں لیکن لمحہئ فکریہ یہ ہے کہ حالیہ دور میں یہ روایات تشدد پسندی، عدم برداشت، عدم تحمل، لڑائی، گالی گلوچ اور نفرت کو پروموٹ کر رہی ہیں جبکہ ہمارا معاشرہ اخلاقی اقدار کے حوالے سے پہلے ہی خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔ ہماری سیاسی قیادت اس بدتمیزی کی آگ پر پانی پھینکنے کی بجائے پٹرول ڈال رہی ہے۔ اس ماہ کے تین واقعات ایسے ہیں جس سے ہماری سیاسی جمہوری سمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم معاشرتی انحطاط کے ایک ایسے گڑھے کی طرف گامزن ہیں جہاں سے واپسی کا راستہ ممکن نہیں۔
12جون کی وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے موقع پر قومی اسمبلی میں ہونے والی لڑائی کو پوری دنیا نے دیکھا جب اپوزیشن نے تقریر کے دوران شور شرابہ کیا جو کہ ہر سال ہی ہوتا ہے۔ اس دفعہ جو کام اضافی ہوا وہ یہ تھا کہ حکومتی ارکان اسمبلی نے اپوزیشن کی صفوں میں گھس کر ان سے بینر چھیننے کی کوشش کی تو لڑائی کا آغاز ہوا جس میں ایک دوسرے پر کتابیں پھینکی گئیں لیکن اس کا آغاز حکومتی ممبران کی طرف سے ہوا۔ ایک دوسرے کو ننگی گالیاں دی گئیں جسے سپیکر صاحب لاکھ حذف کراتے رہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ گالی ناقابل حذف ہوتی ہے۔
دوسرا واقعہ یکم جولائی کا ہے جب قومی اسمبلی کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر بلا عذر شرکت سے اس لیے انکار کر دیا کہ اس میں بلاول بھٹو اور شہباز شریف بھی شریک ہو رہے تھے یہ چونکہ مختصر سی Gathering ہوتی ہے جس کے اختتام پر میٹنگ میں شریک سیاستدان ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں اور ہلکی پھلکی گفتگو کرتے ہیں جو عموماً غیر رسمی ہوتی ہے یہ سیاسی روایت کا حصہ ہے۔ وزیراعظم کو مسئلہ یہ تھا کہ وہ بلاول اور شہباز شریف سے ہاتھ نہیں ملانا چاہتے تھے اور نہ ہی ان کے منہ لگنا پسند فرما رہے تھے جس کا حل یہ نکالا گیا کہ ایک حساس ترین اور اہم ترین موقع پر انہوں نے وزیراعظم کی کرسی کو خالی رکھا۔ کسی اور ملک میں یہ ہوتا تو Dereliction of Duty کے تحت ان کے اس اقدام کو ملکی سلامتی کے منافی قرار دیا جاتا۔ یہ اصطلاح فوجی کلچر سے لی گئی ہے جس میں اس سپاہی یا افسر کا کورٹ مارشل کیا جاتا ہے جو سنگین خطرے کے وقت میدان جنگ سے
اپنا مورچہ چھوڑ کر بھاگ جائے۔ یہ اپنے فرائض سے خیانت کی بد ترین صورت حال ہوتی ہے۔ اس کو بزدلی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بہرحال وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے اس کی تاویل یہ پیش کی گئی کہ اس میٹنگ میں جو باتیں زیر بحث لائی گئیں، وزیراعظم ان سے پہلے ہی آگاہ تھے۔ عذر گناہ بد تر از گناہ والی بات ہے۔
آپ ان دونوں واقعات کو چھوڑیں۔ میرے اس کالم کی اصل وجہ سابق صدر ممنون حسین کی وفات پر حکومت کا وہ بے حس رویہ ہے جس نے حکمرانوں کو سابق صدر کے جنازے میں شرکت سے باز رکھا۔ اس پر جس قدر افسوس کریں کم ہے۔ ہم کون سی روایات قائم کر رہے ہیں۔ آنے والی نسلوں کے لیے کیا کیا مثالیں قائم کی جا رہی ہیں۔
صدر ممنون حسین پاکستان کے 12 ویں صدر تھے جو 2013 ء سے 2018ء تک ملک کے آئینی سربراہ یعنی Head of State رہے۔ بہ لحاظ عہدہ وہ ملک کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر تھے اور ہر سال قومی فوج 23 مارچ کو انہیں بڑے اہتمام سے سلامی پیش کرتی تھی۔ اس کے علاوہ وہ 1999ء میں بطور گورنر سندھ اپنی خدمات انجام دے چکے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ن لیگ پر کرپشن کے جملہ الزامات کے باوجود صدر ممنون حسین کی ذات پر ایک پیسے کی کرپشن کا الزام نہیں ہے۔ ان کا تعلق مڈل کلاس سے تھا ان کا کوئی بیٹا یا فیملی کا کوئی فرد سیاست میں نہیں آیا نہ ہی انہوں نے سیاست کو وراثت میں بدلنے کی کوشش کی۔ وہ صدارت سے سبکدوشی کے بعد کراچی کی بھیڑ میں گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے لگے سوشل میڈیا پر ان کی ایک تصویر کو ماضی میں بڑے طنزیہ انداز میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔ جس میں وہ معمولی لباس پہنے کسی عام علاقے کی گلی میں سگریٹ کا کش لگاتے نظر آ رہے تھے۔ حالانکہ یہ تصویر ان پر تنقید نہیں بلکہ ان کی عظمت کی دلیل کے طور پر لی جانی چاہیے تھی۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق گورنر سندھ محمد زبیر، چودھری احسن اقبال اور دیگر ن لیگی قیادت نے سفر آخرت میں انہیں کندھا دیا لیکن پیپلزپارٹی اور حکمران جماعت کا کوئی فرد اس موقع پر وہاں شریک نہ تھا۔ صدر پاکستان عارف علوی صاحب کا تعلق کراچی سے ہے اور انہوں نے اپنی صدارت کی کرسی اسی ممنون حسین کے بعد ان کے جانشین کے طور پر سنبھالی تھی مگر وہ بھی غیر حاضر پائے گئے۔
جب انسان مر جاتا ہے تو مخالفت سیاسی اختلافات اور پارٹی بازی یا نظریاتی تفاوت یہ سارا کچھ اس کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے لیکن لگتا ہے کہ حکمران جماعت مرنے والے کو موت کے بعد بھی معاف نہیں کرتی جو کہ نہایت افسوسناک روایت ہے۔ صدر پاکستان اور آرمڈ فورسز کے سپریم کمانڈر اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا جاتا اور انہیں آخری سلامی پیش کی جاتی لیکن یہ نہیں ہوا اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے اگر وہ جاگیردار یا بہت بڑے سرمایہ دار یا کسی سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہوتے تو پھر ان کا جنازہ اتنی خاموشی سے نہ اٹھایا جاتا۔
جنازے قطعاً یہ فیصلہ نہیں کرتے کہ مرنے والا حق پر تھا یا نہیں لیکن پھر بھی یہ چونکہ ایک فرض کفایہ ہے لہٰذا زندگی میں جن افراد یا اداروں کے ساتھ قریبی وابستگی رہی ہو ان کے ضمیر پر ایک اخلاقی بوجھ ہوتا ہے کہ مرنے والے کو خدا حافظ کہا جائے۔ یہ روایت شکنی خطرناک ہے۔