اسلام آباد:سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی انتخابی دھاندلی کے خلاف درخواست پر وکیل کو رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرنے کے لیے تیاری کی مہلت دے دی۔ سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر فارم 45 اور 47 میں کوئی فرق ہے، تو ان میں سے ایک درست ہوگا اور اس کا تعین کرنے کے لیے مکمل انکوائری کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت، جسٹس جمال خان مندوخیل نے عمران خان کے وکیل سے کہا کہ اگر آپ کو لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن جانبدار ہے تو آپ کو متعلقہ فارم کی جانچ پر جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فارم 45 اور 47 میں فرق ہونے کی صورت میں ایک فارم درست ہوگا اور اس فرق کو جانچنے کے لیے انکوائری کرنا ضروری ہے۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ صرف اعتراضات دور کرنے کے لیے آئے ہیں اور اس کیس کو میرٹ پر نہیں لانا چاہتے۔ اس پر جسٹس مندوخیل نے سوال کیا، "کیا پورے خیبرپختونخوا سے بلوچستان تک پورا الیکشن غلط تھا؟" انہوں نے کہا کہ ہر حلقے کی علیحدہ انکوائری ہوگی۔ ماضی میں بھی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر انکوائری کے لیے آرڈیننس لانا پڑا تھا۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ 184 کے تحت عدالت کا دائرہ اختیار اس کیس میں نہیں آتا۔ وکیل نے عدالت کی کمزوری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک سوموٹو ایکشن نہیں لیا گیا، جس پر جسٹس مندوخیل نے انہیں الفاظ کے انتخاب میں احتیاط برتنے کی ہدایت کی۔
عدالت نے وکیل کو مزید تیاری کے لیے مہلت دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔