نامساعد حالات،عدم تعاون اور بیوروکریٹک رکاوٹوں کے باوجود بھی عثمان بزدار نمبر ون وزیر اعلیٰ ،محاورہ تو ہے ۔ ’’دلہن وہی جو پیا من بھائے‘‘ مگر میں کہتا ہوں حکمران وہی جو رعایا من بھائے ، لوگ جسکی تعریف کریں اور اس کے اقدامات پر اطمینان و تشفی کا اظہار کریں ۔اس اصول کے تحت انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپیینین کے حالیہ سروے میں سردار عثمان بزدارکو عوام کی اکثریت نے عوام دوست وزیر اعلیٰ قرار دیتے ہوئے ان کی تین سالہ حکومت میں کئے گئے اقدامات کی تعریف کی ہے، سروے میں دیگر تینوں صوبوں کے وزراء اعلیٰ عثمان بزدار کے پیچھے کھڑے ہیں جبکہ عثمان بزدار وکٹری سٹینڈ پر،سروے کے مطابق45فیصد رائے دہندگا ن نے کارکردگی کے لحاظ سے سردار عثمان بزدار کو سب سے بہترین وزیراعلیٰ قراردیا، عثمان بزدار نے تعلیم او رصحت کی سہولتوں اور ڈویلپمنٹ کے لحاظ سے بھی دیگر وزراء اعلیٰ کو پیچھے چھوڑ دیا86فیصد رائے دہندگان عثمان بزدار کی قیادت میں پنجاب حکومت کے تعلیم کی سہولتوں کے حوالے سے اقدامات پر مطمئن ہیں، سروے کے 72فیصد شرکاء نے صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے بزدار حکومت کی تعریف کی،ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بھی پنجاب میں 51فیصدافراد نے عثمان بزدار کی توصیف کی،اہم ترین بات یہ کہ 61فیصد رائے دہندگان سرکاری محکموں میں سروس ڈلیوری پر بھی عثمان بزدار سے مطمئن دکھائی دیے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینین نے چاروں وزراء اعلیٰ کی کارکردگی کے بارے میں نیا سروے جاری کیاہے، جس کے مطابق سردار عثمان بزدار 3سالہ کارکردگی کے لحاظ سے تمام وزرائے اعلیٰ سے آگے ہیں، رائے دہندگان کی اکثریت نے سردار عثمان بزدار کوسب سے بہتر وزیراعلیٰ قرار دیا ہے،سروے کے مطابق پنجاب کے45فیصد رائے دہندگا ن نے کارکردگی کے لحاظ سے عثمان بزدار کو سب سے بہترین وزیراعلیٰ قراردیا،خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان دوسرے،سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ تیسرے اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو چوتھے نمبر پر رہے۔یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ عثمان بزدار نے کفائت اور بچت کی پالیسی اپناتے ہوئے وزیر اعلیٰ ہاؤس اور دفتر کے اخراجات میں نمایاں کمی کی ہے،اس حوالے سے وہ سر فہرست ہیں ورنہ ماضی میں وزیر اعلیٰ کے لاہور اسلام آباد اور مری کے گھر بھی کیمپ آفس قرار پاتے اور ان کے تمام اخراجات بھی پنجاب حکومت کو برداشت کرنا پڑتے تھے،عثمان بزدار نے اس روایت کو بھی توڑا اور کوئی کیمپ آفس نہیں بنایا۔
جمہوری حکمران بادشاہ نہیں ہوتے بلکہ درحقیقت عوام میں سے عوام کی رائے سے عوام کیلئے منتخب کئے جاتے ہیں مگر تیسری دنیا میں جمہور کے نمائندے اقتدار میں آکر سب سے پہلے جمہور کو نظر انداز کر کے انہیں شہری کے بجائے رعایا کا درجہ دے دیتے ہیں اور خود ظل الٰہی بن کر مغل بادشاہوں کی طرز پر عوام پر مسلط ہو جاتے ہیں،عثمان بزدارایسے وزیر اعلیٰ ہیں جنہوں نے سرکاری اخراجات کا بے تحاشا اور بے دریغ استعمال روکا،سابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی تو اپنے گھر میں رہتے اخراجات بھی خود برداشت کرتے تھے،پروٹوکول کو خیر باد کہہ کر ایک مقروض ملک کے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے بچت کے ساتھ عوام کے انتہائی قریب ہونے کی کوشش کی ورنہ ماضی میں بڑی بڑی حفاظتی سکرینوں میں فرلانگوں عوام سے دور وزراء اعلیٰ کے عوامی جلسوں میں سٹیج سجا کرتے تھے،مگر عثمان بزدار خود کو عوام کی سطح پر لا کرعوام کے بیچ میں رہ کر عوام سے براہ راست رابطے میں ہیں جو ملکی حکمرانی میں ایک انقلاب ہے،یہی وجہ ہے کہ عثمان بزدار کے انقلابی اور تاریخی اقدامات کو عوامی تائید و حمائت حاصل ہو رہی ہے۔
پنجاب حکومت کی قابل ستائش کار کردگی صرف عثمان بزدار کی مرہون منت ہے،اگر ان کی ٹیم کے وزراء کی کارکردگی پر نگاہ ڈالی جائے تو دو چار کے سوا باقی سب کی کار کردگی صفر ہے،کیا ہی اچھے نتائج عوام کو دی جانے والی سہولتوں کے حوالے سے برآمد ہوتے اگر پنجاب کابینہ کا ہر رکن اسی جذبے اور لگن سے عوامی خدمت انجام دیتا،آج نہ صرف تحریک انصاف سر اٹھا کر سر خرو کھڑی ہوتی بلکہ آئندہ انتخابی مہم میں بھی پورے قد کے ساتھ شریک ہوتی مگر بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا ،نئے چہرے آزمانے کے چکر میں محکموں اور سرکاری مشینری کا بیڑہ غرق کر دیا گیا،نئے چہروں اور نوجوان نسل کا حکومتی ایوانوں میں جانا وقت کا تقاضا ہے مگر ان کا تعلیم یافتہ اور اپنی وزارت کے حوالے سے تربیت یافتہ ہونا ضروری تھا، بیورو کریسی کا تو شروع میں ستیاناس کر دیا گیا ،ابتدائی ڈھائی سال تو ملکی بیوروکریسی جو تعلیم،ہنر،تجربے اور تربیت میں یکتا ہے کو دشمن سمجھ لیا گیا،حالانکہ بیوروکریسی کی دیگر خوبیوں کیساتھ ایک خوبی یہ ہے کہ تمام سرکاری افسر اپنے محب وطن ہونے کا ثبوت دیتے ہیں،ایف بی آر کے ریکارڈ کو چیک کر لیں،سینئر سرکاری افسر کروڑ پتی سیاستدانوں اور حکمرانوں سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں ،ایسے میں ان کی وفاداری پر شک دراصل ریاستی مشینری پر شبہ کا اظہار تھا۔
عثمان بزدار بنیادی طور پر ایک عام شہری ہے اور وہ بھی پسماندہ دور دراز اور دیہی علاقہ سے،دیہی لوگوں کا اپنا ایک کلچر ہوتا ہے،سادگی اس کلچر کا جزو لا ینفک ہے،وضع داری کیساتھ تواضع بھی دیہی کلچر کا لازمی حصہ ہے،اس لئے وہ مخالفین کو بھی اہمیت دیتے ہیں،پنجاب وہ صوبہ ہے جہاں کوئی سادہ اور عام شخص ایوان اقتدار کی غلام گردشوں کی سازشوں کا مقابلہ نہیں کر سکتامگر اپنی تواضع وضع داری سادگی خلوص ملنساری ایثار کے جذبے کے تحت ہی بزدار تین سال تک کامیابی سے یہاں حکومت کر سکے،حکومت کے پاس اب آئندہ الیکشن میں جانے کیلئے بہت کم وقت ہے اگر ابتدائی سال ضائع نہ ہوئے ہوتے تو اب حکومت انتخابی مہم شروع کر چکی ہوتی اور آئندہ الیکشن میں یقینی کامیابی سے ہمکنار ہوتی،اگر چہ بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے مگر اب بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے،وفاقی حکومت نہیں مانتی تو اس کی مرضی لیکن پنجاب حکومت اب بھی بیوروکریسی یعنی سرکاری مشینری کو اعتماد میں لے کر،کار کردگی دکھانے کا موقع دیکر،اعزاز کے ساتھ اکرام اور انعام دیکر،خوف کی چادر کو سمیٹ کر بیورو کریسی سے بہت کام لے سکتی ہے،پہلے بھی عرض کی تھی سیاستدان پانچ سال کیلئے آتے ہیں اور بیورو کریسی مدت ملازمت کے دوران کئی حکومتیں بھگتا چکی ہوتی ہے،سرد و گرم چشیدہ سرکاری افسر کسی بھی حکومت کو دلدل میں پھنسا سکتے ہیں اور کسی کو بھی مصائب سے نکال سکتے ہیں ’’آزمائش شرط ہے‘‘۔
عثمان بزدار کے جن محکموں کی شہریوں کی طرف سے توصیف کی گئی ان کی بیوروکریسی اور سرکاری مشینری کے تعاون پر ایک نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے جب تک مقننہ اور انتظامیہ میں مضبوط رابطے نہیں ہوتے، ادارے ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے ایسی کارکردگی دکھانا ممکن نہیں ہوتا،اس کے باوجود عثمان بزدار مبارکباد کے مستحق ہیں کہ بدترین حالات میں بہترین نتائج دے رہے ہیں۔