نوازشریف آ رہا ہے… نوازشریف نہیں آئے گا… نوازشریف کو حکومت وطن واپس لا کر قانون کے کٹہرے میں پیش کر دے گی… نوازشریف اس طرح کی دھمکیوں کی پروا نہیں کرتا وہ اپنی مرضی اور پروگرام کے تحت آئے گا… وطن واپس آنے سے پہلے ہمیشہ کی نااہلی کا قضیہ ختم کرائے گا… حکومت کو اس کی پروا نہیں نوازشریف کی نااہلی ختم ہوتی ہے یا نہیں وہ اسے اپنے ملکی قانون کے تحت جیل کی سزا ضرور دلوائے گی… نوازشریف کے ساتھ ملک کے قابل ترین بار ایسوسی ایشن کے نمائندہ وکلاء کی فوج ظفرموج ہے جس نے اس کی نااہلی کا مقدمہ ختم کرانے کے لئے رٹ پٹیشن تیار کر لی ہے جس کی مدد سے اس کے گلے سے عمر بھر کی نااہلی کا طوق ہٹا دیا جائے گا…مگر ہمارے اہل اقتدار بھی مرضی کے فیصلے حاصل کرنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں…وکیل اور جج کس باغ کی مولی ہیں… فوجی ترجمان کا کہنا ہے ہماری تین مرتبہ منتخب ہونے والے سابق وزیراعظم سے کوئی ڈیل نہیں ہوئی… وہ جانے اس کا کام… دونوں جانب کے مبصرین کانوں میں مرمریں کرتے ہیں اگر ڈیل نہیں بھی ہوئی تو کسی نوعیت کی مفاہمت سے کام لیا جا رہا ہے وہ مفاہمت کیا ہے اس کے بنیادی خطوط کہاں طے پائے اس کا کسی کو علم نہیں ہو سکتا ہے اقتدار کے اصل مالک جانتے ہوں یا نوازشریف خود لیکن کوئی قوم کو کسی قطعی رائے سے آگاہ کرنا ضروری نہیں سمجھتا… ابھی تو نوازشریف کا لندن میں علاج مکمل نہیں ہوا، ہو جائے گا تو آ بھی جائے گا مگر حکومت حوالئی مجرمان کے قانون کو آخری شکل دے کر اسے لا کر دم لے گی… نوازشریف ان دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لاتا… آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ ملک جو جان جوکھوں سے حاصل کیا گیا لازوال قربانیاں دی گئیں اس کی ساری سیاست دو اداروں میں یا شخصیات کے گرد گھوم رہی ہے ان میں سب سے زیادہ طاقتور اور بظاہر مؤثر دکھائی دینے والی فوجی قیادت ہے جو بظاہر سارا کھیل کھیل رہی ہے… آئین مملکت کے تحت خالص غیردستوری اور ماتحت ادارہ ہے لیکن اپنے اختیارات کا جال اتنا بچھا رکھا ہے جس کی پکڑ نظر بھی آتی ہے اور خفیہ سیاسی کھیلوں میں بے پناہ تجربے کی وجہ سے کسی کو ہاتھ پائوں مارنے کی جرأت نہیں ہوتی تاہم یہ قیادت جو خود کو غیرجانبدار بتاتے تھکتی نہیں اس پر اصرار کرتی ہے کہ اس کا اقتدار کے کوچوں میں کچھ لینا دینا نہیں وہ جانے اور سیاستدان اپنا کام کریں ہم تو ہر حالت میں دفاع پاکستان کو اولین ترجیح دینے والے لوگ ہیں بازی گر ہم نہیں آپ ہیں… مگر اندر کی بات سے ہر کوئی واقف ہے ان کے پیشوائوں میں سے ایک اور بلاشرکت غیرے گیارہ سال حکومت کرنے والے ضیاء الحق نے کہا تھا یہ سیاستدان باہر میرے خلاف اور اصولی سیاست کے حق میں بیانات دیتے نہیں تھکتے لیکن انہیں ایک اشارے پر اپنے پاس بلائوں تو دُم ہلاتے چلے آتے ہیں پھر جیسے میں کہتا ہوں اس نوعیت کی وفاداری دکھانے میں پیچھے نہیں رہتے… آج کا منظر بھی وہی نقشہ پیش کر رہا ہے… نوازشریف حکومتی الفاظ میں علاج کے بہانے ملک سے باہر بیٹھا ہے اس کا بیان چھپ نہیں سکتا مگر وہ بیانات جاری کرتا ہے… زوردار تقاریر کرتا ہے… عمران حکومت کی بے راہ روی اور مقتدر قوتوں کی بالادستی کو ہر دم چیلنج کرتا ہے آگے کیا ہونے والا ہے، نشانِ منزل کیا ہے، اگلے انتخاب کب ہوں گے، کون جیتے گا، کون ہارے گا، نتائج کیا سامنے آئیں گے، کون انہیں قبول کرے گا، کون مسترد کرے گا … ان قیاس آرائیوں کا جنگل بسا کر رکھ دیا گیا ہے جس کی بدولت دماغ ہر آدمی لڑا رہا ہے مگر اندھیرا اتنا چھایا ہوا ہے کہ دور دراز سے روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی…
یہ درست ہے عمران خان کی حکومت نے اپنی پراگندگی طبع کی وجہ سے قومی اور ملکی سیاست کے نظم و نسق کو اکھاڑ پھینک کر رکھ دیا ہے کوئی قاعدہ کوئی ضابطہ قانون ہماری دنیائے عمل میں کارفرما نظر نہیں آتا… مہنگائی کا اتنا رونا رویا جاتا ہے اور روزمرہ کی بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا اس حد تک ماتم کیا جاتا ہے کہ کوئی بات محتاج بیان نہیں رہی… متوسط طبقے کے لوگ پریشان و بے حال ہیں… بطورِ وزیراعظم اس کی ناکامی نوشتہ دیوار بن کر ہم سب کا منہ چڑا رہی ہے مگر اسے لایا کون ایک عناد کے جذبے کے تحت اسے قوم کے سروں پر مسلط کس نے کیا… کس کے مبارک ہاتھوں سے یہ
کام کرانے کا کھیل کس نے رچایا… اس کے سبز قدموں کے ذریعے ہماری قوم کو کس انجام سے دوچار کیا جا رہا ہے… اس کی منصوبہ بندی کس نے کی تھی… کون سا بدلہ لینے کی خاطر اس کو لانے کا ڈرامہ رچایا گیا تھا… اس سارے کام میں اصل دوش کس کا ہے وہ جو لانے والے ہیں یا اس لاڈلے کا جو کھیلن کو مانگے چاند… اب ساڑھے تین سال میں نوبت اس مقام پر آن پہنچی ہے کہ پاکستان کی گاڑی کے پہیوں کو ہر قدم پر پنکچر لگوانا پڑ رہے ہیں… اہلِ وطن کیا پوری دنیا کے سامنے رجعت قہقہری کا قابل افسوس نمونہ بنتی جا رہی ہے… ’’آئی ایم ایف‘‘ سے ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے لئے جس طرح معاشی آزادی کو دائو پر لگایا گیا ہے… سٹیٹ بینک آف پاکستان کی رہی سہی خودمختاری کو اس کے قدموں پر رہن رکھ دیا گیا ہے… سخت ترین شرائط کا پابند ہمیں بنا دیا گیا ہے… اس کی ذمہ دار یقینا عمران حکومت ہو گی مگر پاکستان کو اس مقام تک لانے میں ہمارے جن داخلی اور مقتدر اداروں نے ظاہری یا خفیہ طور پر فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے ان کا محاسبہ کرنے والا بھی کوئی ہے یا نہیں اس کا واضح اور قطعی جواب اس لئے نہیں مل پا رہا کہ جوں جوں یہ ابہام پھیلے گا اوپر والوں کے اقتدار کی جڑیں مضبوط تر ہوتی جائیں گی دوسرے الفاظ میں اصل لڑائی یہ ہے تم نے یعنی سویلین والوں نے اچھے ہو یا برے ہر حالت میں نمبر دو بن کر رہنا ہے اور اہل وطن کو یہ باور کرانے میں کسر باقی نہیں رہنے دی تم ہی نمبر ایک ہو اس کے بعد ہمیشہ کے لئے چل سو چل پہلے یہ مقتدر قوتیں ہمہ وقت اقتدار کے دس گیارہ سال ہڑپ کر لیا کرتی تھیں… دس گیارہ سال گزر جاتے تھے پھر مشرقی پاکستان جیسے المیے جنم لینے لگے اس کے بعد وقفوں کی مدت سکڑ گئی تین چار سال تک محدود ہو گئی تاہم اصل راج کماری نے اپنے آپ کو مسلط کرنے میں کمی باقی نہ رہنے دی…
تو آج کا اصل جھگڑا یا تنازع کیا ہے؟کیا ستر سالہ پرانا کھیل اسی طرح کھیلا جاتا رہے گا یا امید کی کوئی کرن روشن ہو سکتی ہے بنیادی مسئلہ حل کر لیجئے لمحہ موجود کے اندر وہ حل کیا ہے؟ کہاں پایا جاتا ہے کون اس پر عمل پیرا ہو گا یہ سوال بڑا اہم ہے لمبی چوڑی سخن آرائی کا متحمل نہیں رہا دلائل کے انبار لگائے جا چکے ہیں ان کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے/ ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات… ساری سیاسی قوتیں اسٹیبلشمنٹ کا پورے کا پورا ادارہ آئینِ پاکستان کی قومی اور متفق علیہ دستاویزکے آگے سرنگیں ہو جائیں نا کوئی بندہ رہے نہ بندہ نواز… قوم کی گاڑی کے آگے دستورِ مملکت کا گھوڑا باندھ دیجئے کوچوان اس کا اور کوئی نہیں بلکہ عوام کے منتخب نمائندوں کی پاک اور آزاد ترین یعنی ہر قسم کی مداخلت سے عاری حکومت کے نمائندوں کی جماعت کے ہاتھوں میں ہوان کے کاموں میں کوئی مداخلت نہ کرے… پارلیمنٹ حزب اختلاف کی جماعتوں سے مل کر ان کا احتساب جاری رکھے… جرنیل بھی ان کے سامنے جواب دہ ہوں… تمام محکمے اس پارلیمنٹ کے سامنے حاضر باش رہا کریں اپنا محاسبہ کراتے رہیں حکومت کا بھی کریں… فوج پوری دلجمعی کے ساتھ دفاع وطن کا فریضہ ادا کرتی رہے… وہ یہ کام کرنا خوب جانتی ہے اس نے بلاشبہ سرحدوں کی بہت زیادہ حفاظت کی ہے… دشمن کا منہ توڑ جواب دینا بھی اسے آتا ہے… بس یہ ہے کہ اس کی ساری توجہات اس کام کی جانب مرکوز ہو جائیں اس حقیقت سے سرِمو انکار نہیں کیا جا سکتا… دفاع پاکستان کے عظیم فریضے کی ادائیگی میں سویلین اور منتخب حکمرانوں نے انہیں جتنی دیر بھی اقتدار میں رہنے دیا گیا قابل قدر کارنامہ سرانجام دیا… ملک کو ایٹمی طاقت بنایا پھر ہندوستان والوں کو ہم پر جارحیت کا ارتکاب کرنے کی جرأت نہ ہوئی… اب بھی فوج نے اگر پاکستان کا دفاعی حصار مزید مضبوطی کے ساتھ تعمیر کرنا ہے تو اس جانب لگ جائے سویلینز کے کاموں میں مداخلت ہرگز نہ کرے… یہی قائداعظمؒ کا خواب تھا اسی کی تعبیر وہ دیکھنا چاہتے تھے ان کی زندگی نے مہلت نہ دی مگر ان کے بعد یار لوگوں نے شطرنج کی ایسی بازی کھیلنا شروع کر دی کہ ملک اور قوم کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا… اسی کا خمیازہ اب تک بھگت رہے ہیں… دوسری قوموں سے کچھ سبق حاصل کرنا ہے اور ترقی واقعی کرنی ہے، ترقی اور معاشی آزادی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو اس کا راستہ صرف ایک ہے لیکن اس مقصد کی خاطر آپ کو اپنے غیرآئینی اقتدار کی جسے آپ سرِعام تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہیں قربانی دینا ہو گی… ادارہ جاتی اناپرستی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ترک کرنا ہو گا… اگر یہ کام بھارت میں ہو سکتا ہے اور وہاں کی جمہوریت کو ہمارے مقابلے میں فروغ مل سکتا ہے امریکہ اور برطانیہ نے اسی راستے پر گامزن ہو کر پچھلے اڑھائی تین سو سال کے دوران کئی کارنامے دکھائے ہیں دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے… اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے اسلامی جمہوری سیاست کی شروعات ہوئی تھیں … عالم اسلام چمک دمک رکھتا تھا دنیا پر چھا گیا… خلیفہ اپنے سپہ سالار کو آن واحد میں معطل کر سکتا تھا… پاکستانی مقابلتاً کم صلاحیتوں کے مالک نہیں ہیں مگر کیا فوج ملکی سیاست کے اندر اپنے آہنی قلعہ کی دیواروں کو حقیقی معنوں میں مسمار کرنے کے لئے تیار ہو جائے گی یہ ذرا ٹیڑھی کھیر ہے اس وقت اصل تنازع لندن میں بیٹھے نوازشریف اور راولپنڈی والوں کے درمیان یہ ہی ہے نواز کی شرائط بظاہر سمجھوتہ کرنا نہیں شفاف ترین انتخابات کا انعقاد ہے… ہمارے ’’عظیم‘‘ جرنیل اس سے موجودہ حالات میں بھی گریزاں نظر آتے ہیں… ساری بات اس ایک نکتے پر آ کر اٹکی ہوئی ہے اور قوم ٹک ٹک تماشا دیکھنے پر مجبور ہے… اگر اس سلسلے کو اسی طرح جاری رہنا ہے تو تماشا بھی ہوتا رہے گا… ہم ایک ہی کھونٹے پر ناچتے رہیں گے… اپنا برا حال ہوتا دیکھتے رہیں گے… کوئی دن آنے والا ہے کہ پُرسان نہ رہے…ہم پڑھی لکھی اور باشعور قوم ہیں اس انجام سے دور رہنا ہو گا… حالیہ اور گردوپیش کی تاریخ سے سبق سیکھنا جتنا ہمارے لئے ضروری ہو گیا ہے دوراہے پر کھڑی کسی اور قوم کا کام نہیں… بس آگے بڑھئے اور پرانے بت مسمار کر کے رکھ دیجئے… بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنا ہو گی مگر کون ایسا کرے گا اگر نوازشریف نہیں تو کوئی اور اٹھ کھڑا ہو گا… ہم کب تک اس حال میں جلتے مرتے رہیں گے… جب تک موجودہ نظام چلتا رہے گا پریشانی اور خلفشار اور ناکامیاں در ناکامیاں ہمارے گھروں کا راستہ دیکھتی رہیں گی…