ہمارے ہاں ہر دور حکومت میںلوگ ایک کام کرنے کے ماہر ہو چکے ہیں۔ وہ ہے شور مچانا،شور مچاتے مچاتے ہم اپنے مقصد سے اتنا دور نکل چُکے ہیں نہ تو ریاستی مسائل حکمرانوں کو نظر آتے ہیں اور نہ ہی اُن کی بے بسی مگر یہاں رُک کر سوچیے!کیا عوام اپنے ساتھ یا حکمران عوام کے ساتھ اور اس ملک کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں؟
ہمارے ہاں با اقتدار سیاسی رہنما جہاز کے اُس کپتان کی مانند ہیں جو فن جہاز رانی سے ناواقف ہیں سیاسی تجربے کے بغیر اقتدار حاصل کر لیتے ہیں پھر اُن کے ارد گرد خوشامدی مصاحب اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اُن کی جھوٹی تعریف کرکے اُنہیں دھوکے ،اور فریب کے شیشے میں ایسے اُتارتے ہیں اور اُس کے عوض وہ خود ذاتی فائدے اُٹھاتے ہیں جبکہ عوام جہاز کے مسافروں کی طرح شوروغل مچانے اور ہنگامے میں مصروف رہتے ہیں جبکہ ریاست کا جہاز سمندر کی لہروں میں ہچکولے کھاتا رہتا ہے اور منزل مقصود سے دور رہتا ہے۔ ہماری ریاست بھی اسی صورتحال سے دوچار ہے۔قصور سارا حکمرانوں اور سیاست دانوں کا نہیں اس میں تھوڑا کردار عوام کا بھی ہے۔جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ایسے لوگوں کا انتخاب کر لیتے ہیں جو اندھے ،بہرے ہوتے ہیں اُن لوگوں کو دکھائی اور سنائی صرف تب ہی دیتا ہے جب اُنہوں نے ووٹ لینا ہوتے ہیں۔عوام جن لوگوں کو چُن کر 5سال کے لیے لے آتے ہیں جب عوام مہنگائی کے سمندر میں ڈوبنے لگتے ہیں تو شور و غل مچانے لگتے ہیں مگر عوام یہ کیوں نہیں سوچتے کہ وہ ان اندھے، بہرے لوگوں سے زیادہ طاقتور ہے۔
عوام ان اندھے، بہروں کو چُن تو لیتے ہیں مگر وہ عقل کے دھنی ہیں۔کیونکہ یہ لوگ 5سال جس خوبصورتی سے عوام کو اپنی نئی نئی سکیموں سے جھانسے دیتے ہیں وہ قابل ستائش ہے۔ماضی کے ادوار کی بات کریں تو ماضی میں بھی وہی سکیمیں تھیں۔ ان سکیموں سے عوام کو فائدہ ہو ا یا نہیں مگر ان سے وزیر،مشیر،اور وزیراعظم کے ارد گرد کے مصاحب اور خوشامدی تو ہر دور میں بھرپور فائدہ اُٹھاتے رہے ہیں۔ماضی کے دور کی جو سکیمیں تھیں اُن میں سستی روٹی سکیم،ییلوکیپ سکیم،کامیاب نوجوان ،لیپ ٹاپ سکیم،بینظیر انکم سپورٹ سکیم ۔جس میں ایسے ایسے گھپلے سامنے آئے مگر ان سکیموں کی مد میں لوٹا ہوا پیسہ آج تک وصول نہیں ہوا۔ ان لوگوں کا احتساب تو ایک طرف مگر آج تک ان لوگوں کو حکومتی عہدوں اور اہم پوسٹوں سے بھی کوئی نہیںہٹا سکا۔
ماضی کی حکومتوں اور موجودہ میں فرق کچھ نہیں ہے۔یہ بات میں نے اس لیے کہی کہ موجودہ میں بھی صحت کارڈ کی مد میں حکومت پورے پنجاب کے لیے 400 ارب دے گی۔اس سے عام عوام کو کتنا فائدہ ہوگا یہ آپ سب بھی جانتے ہیںاس کے علاوہ سستا راشن،احساس پروگرام،یہ وہ سکیمیں ہیں جن کا فائدہ عوام کو کم مگر مڈل مین کو زیادہ فائدہ ہوجائے گا۔ابھی مزید آگے چلتے ہیں کہ اس گورنمنٹ کی کن کاموں میں کرپشن کی داستانیں زدعام ہونگی۔میں اُن پہ بات کرنے سے پہلے ایک بات قارئین کو یاد کرانا چاہوں گی۔ آپ کو یاد ہوگاکہ وزیر اعظم عمران خان اپنی تقاریر میں اکثر ایک بات کہہ کر میاں نواز شریف کو شیر شاہ سوری کے نام سے مخاطب کرتے تھے مگر میں آپ کو یہ بتانا چاہوں گی کہ شیر شاہ سوری کے ادھورے کام تو وزیراعظم عمران خان نے مکمل کیے۔کیونکہ شیر شاہ سوری نے لنگر خانے اور پناہ گاہیں بھی بنوائیں تھیں اور اب عمران خان صاحب نے وہ بنوا کر شیر شاہ سوری کے ادھورے کام مکمل کر دئیے۔اب بات کروں گی کہ کون کونسی کرپشن منظر عام پر آئیں گی وہ لنگر خانوں اور پناہ گاہوں کی صورت میں نظر آئیں گی۔لنگر خانوں کے بارے میں تو مولانا بشیر فاروقی نے یہ بات کہہ دی ہے کہ لنگر خانوں کو مکمل طور پہ وہ لوگ چلا رہے ہیں ۔مگر افسوس!
یہی کرپشن اور معیشت کی بدحالی کی داستانیں سُن سُن کر ہم اور پھر ہماری آنے والی نسلیں بھی بوڑھی ہوجائیں گی۔ہر نئی آنے والی حکومت پچھلی جماعتوں کے کرپشن کی داستانیں عوام کو سُنا کر بہلاتی رہے گی۔ مگر سوال یہ ہے کہ ملکی معیشت کو درست کون کرے گا؟ کیا یہ سیاستدان ایک دوسرے کے عیب گنواتے رہیں گے یا ملک کو بہتری کی طرف لانے کے لیے کوئی پہلا قدم بھی اُٹھائے گا۔میرے خیال سے اگر اربوں روپے کی سکیموں کو شروع کرکے یہ پیسہ کرپشن کی نذر کرنے کے بجائے اگر عمران خان صاحب یہ پیسہ انڈسٹری پہ انویسٹ کرتے تو صوتحال قدرے بہتر ہوتی۔ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک سے ہی کچھ سیکھ لینا چاہیے۔جاپان کی مثال لے لیجیے کہ جب جاپان پر بم گرا تو آدھے سے زیادہ جاپان تباہ ہو گیا تھا مگر اُنہوں نے کیا کیا کہ اُنہوں نے انڈسٹری کو پائوں پہ کھڑا کیا جس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ جاپان کی الیکٹرانک مصنوعات آج بھی پوری دُنیا پہ راج کر رہی ہے۔چائنا کی مثال لے لیں جس نے بڑی تیزی سے ترقی کی کیس پلان پہ اس کو سٹڈی کریں کہ اُنہوں نے سب سے پہلے آبادی پہ قابو ڈالا پھر کرپشن پہ اور اپنی انڈسٹری پر توجہ دی نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ آج چائنا کہاں کھڑا ہے۔مگر ہمارے ہاں جمہوریت کے نام پہ برانڈ بن چُکے ہیں جو ہر دور میں اپنی اپنی دکانیں چمکانے میں پہلے الیکشن میں پیسہ لگاتے ہیں اور پھر کرسی پہ آکر دوگنا نکالتے ہیں۔ہر دور کے وزیر اعظم نے اپنے ارد گرد کے لوگوں پر نوازشات ہی کیں۔
وزیر اعظم عمران خان اگر انڈسٹری سروے کراتے، اُن کی گورنمنٹ نے اس طرف دھیان ہی نہیں دیا وہ ایک کروڑ کے بجائے دو کروڑ نوکریاں دے سکتے تھے وہ ایسے کہ اگر وہ انڈسٹری پروموٹ کرنے پہ دھیان دیتے سروے کراتے سمال انڈسٹری کتنی ہے اُن کے مسائل کیا ہیں، گھریلو انڈسٹری کتنی ہے یا وہ انڈسٹری جو بند پڑی ہے۔اُس کے مسائل کیا ہیں اگر ان سکیموں پہ پیسہ ضائع کرنے کے بجائے بند انڈسٹری کو قرض حسنہ دے کر چلواتے جس سے نئے روزگار عوام کو میسر ہوتے مگر اس کی پلاننگ نہ کبھی کسی نے کی ہے اور نہ ہی شاید کوئی کرے گا اگر ہم ملکی معیشت کو بہتر کرنے کی پلاننگ کرتے تو ہمیں یقینا آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑتا۔سٹیٹ بینک کی نجکاری کے بعد اُن کے سٹیٹمنٹ بھی میڈیا پہ آنے لگے ذرا سوچئے ابھی تو شروعات ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
ہماری پوری قوم کو ایک اندھیری غار میں رکھا ہوا ہے جو مشکلات اور مسائل کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی بے حس و حرکت بیٹھی ہوئی ہے اور سامنے دیوار پر جو پرچھائیاں نظر آتی ہیں اُنہیں حقیقت سمجھتے ہیں اگر اُ ن میں سے کچھ لوگ وہ زنجیریں توڑ کر آزاد ہو کر باہر نکل کر روشنی کو دیکھ کر حقیقت سے روشنا س ہو کر واپس آکر اپنے ساتھیوں کو احساس دلاتے ہیں کہ وہ اندھیرے میں اور حقیقت سے لاعلم ہیں ان زنجیروں کو توڑ دیں روشنی میں آکر حقیقت کو پہچانیں مگر افسوس!اس عوام کو اپنا مسکن اور زنجیریں اپنا زیور بنا لیا آج بھی ہمارا معاشرہ آزادی سے زیادہ غلامی کو ترجیح دیتا ہے۔کیونکہ پی ٹی آئی عمران خان کے بغیر نہیں،پی پی پی زرداری کے قدموں میں اور ن لیگ میاں نواز شریف کے دم سے کیونکہ ان لوگوں نے جن کو نوازشات کیں وہی سکون نہیں لینے دیتے اُنہوں نے اپنے وقتی مفاد کے لالچ میں اس ملک اور 22کروڑ عوام کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا اور اُنہی لوگوں نے ان جمہوری پارٹیوں کے بجائے اُن کو برانڈ اور عوام کو غلام بنا دیا۔
نوازشات یا جمہوریت
08:38 AM, 20 Jan, 2022