آج کل مسلم لیگ ن کے چار کے ٹولے کا بڑا ذکر چل رہا ہے۔ ان کے مقتدر حلقوں سے رابطوں کا بھی چرچا ہے۔ یہ خبریں بھی چل رہی ہیں کہ کسی عبوری سیٹ اپ کے لیے نواز لیگ نے از خود چار نام دیے ہیں۔ وجہ اس امر کی یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ شریف خاندان سے ہے تو مسلم لیگ اور اس کی باقی لیڈرشپ پر سرخ لکیر نہ لگائی جائے۔ سیاسی حکمت عملی کے طور پر تو شاید یہ تجویز بہتر ہو لیکن یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف اس پر خاصے برہم ہیں، ہونا بھی چاہیے کیونکہ مسلم لیگ ن کا نام ہی شریف فیملی ہے اور اگر وہ حکمت عملی کے طور پر بھی مائنس ہوں گے تو یہ ان کو قطعاً قابل قبول نہ ہو گا، کہ کل کس نے دیکھا ہے۔ اگر یہ سب افوا ہیں تو ان کا ماخذ بھی مسلم لیگ ن کی قیادت کے متنازع اور بے ربط بیانات ہیں۔ مسلم لیگ کا پہلا بیانیہ ووٹ کو عزت دو کا تھا جس کو بے حد پذیرائی ملی اور مسلم لیگی ورکرز، ٹکٹ ہولڈرز کے علاوہ عوام نے بھی کسی حد تک اس کو سراہا لیکن پھر اس میں اسٹیبلشمنٹ کا مفاہمتی بیانہ گھس گیا اور اس کے سرخیل شہباز شریف بیان کیے جاتے ہیں۔ لیکن اس کام میں مریم نواز اور نواز شریف کے ترجمان محمد زبیر بھی ان کی آشیر باد سے پیش پیش تھے۔ بلکہ اشاروں کنایوں میں مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے بھی مبینہ ڈیل کی باتیں کی گئیں۔ اس حوالے سے محمد زبیر کی چیف آف آرمی سٹاف سے تفصیلی ملاقات اور اس میں سر فہرست شریف فیملی کے لیے معافی تلافی کا رستہ نکالنا تھا جو کہ شومئی قسمت سے نہ ہو سکا۔ اس پر اسلام آباد کلب میں ناشتے میں شریک آرمی چیف سے ملاقات کے بہانے محمد زبیر پھر آن دھمکے لیکن یہاں ان کی دال زیادہ نہ گل سکی۔ البتہ چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ اس پر حال کی دوسرے تیسرے درجے کی لیگی قیادت بھی مبینہ ڈیل کا اظہار کرتی رہی کہ اب ہوئی کہ تب ہوئی۔ اس
لیے محض شہباز شریف کو مورد الزام ٹھہرانا شاید درست نہ ہو۔ اسی بے یقینی کی وجہ سے کنفیوژن پیدا ہوئی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی شریف فیملی سے کسی بھی ڈیل کی واضح تردید کے بعد مسلم لیگی حلقے پریشان ہیں کیونکہ ان کا ماضی دیکھا جائے تو ڈیل سے ان کی سیاست لبریز ہے۔ اس تردید کے بعد مسلم لیگ کے تمام حلقے مایوسی کا شکار ہیں۔
کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن سے بڑی ہجرت ہو سکتی ہے جس کا بظاہر امکان نہیں لگتا۔ اس کے لیے وہ مرحوم غلام حیدر وائیں کی مثال دیتے ہیں جب پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی لاٹ کی لاٹ فلور کراس کر گئی تھی لیکن اب یہ ممکن نہیں کیونکہ اس میں کچھ قانونی اور آئینی رکاوٹیں بھی آ گئی ہیں۔ اور اب وقت گزر گیا ہے کیونکہ 2023 کا الیکشن دروازے پر دستک دے رہا ہے اور سیاسی طور پر اب سارا فوکس اگلے انتخابات ہیں۔ اگر کوئی بھی جماعت تحریک عدم اعتماد یا اسٹیبلشمنٹ سیاسی پارٹیوں کو توڑنے کے عمل میں شریک رہی تو یہ وقت کا زیاں ہو گا۔ اگر گزشتہ تین سال میں یہ کام نہیں ہو سکا تو اب ایسا کون سا معجزہ رونما ہو گیا ہے۔ اس کا بھی بظاہر امکان نہیں لگتا کہ شریف فیملی سے ہٹ کر کوئی ڈیل ہو اس ساری صورتحال سے مسلم لیگ کا کارکن گو مگو کی کیفیت کا شکار ہے اور وہ بھی یہی چاہتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ڈیل ہو جائے۔ کیونکہ یہ چوری کھانے والے طوطے ہیں جدوجہد اور ماریں کھانے والے سیاسی کارکن نہیں۔ لیکن ڈیل کی خبروں کی تردید سے ان کی مایوسی دو چند ہوئی جاتی ہے۔
اب آتے ہیں چار کے ٹولے کی طرف بظاہر مسلم لیگ ن کے چار کے ٹولے کی بات کی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ بھی انکشاف ہوا کہ اصل میں چار کے ٹولے دو ہیں (4×2 = 8) ایک ٹولہ جو مبینہ طور اسٹیبلشمنٹ سے عبوری سیٹ اپ کی ڈیل چاہ رہا ہے جبکہ اس کے لیے قربانی مسلم لیگ ن کے چار شریفوں کی تجویز کی جا رہی ہے جو بظاہر قابل عمل نظر نہیں آتی ہے۔ کیونکہ مسلم لیگ کا نام ہی شریف فیملی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال کہ 2× 4 کہ یہ ضرب بڑھتی جائے گی۔ بعض نادان دوستوں کا خیال ہے کہ یہ ایک حکمت عملی بھی ہو سکتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کر کے بعد میں شریفوں کے لیے راہ ہموار کی جائے۔ یوں تو مثلث کے تین کونے ہوتے ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ تکون کے چاروں خانوں کا حساب رکھ کر حکمت عملی بناتی ہے اس لیے حکمت عملی والی بات ہضم نہیں ہوتی۔
مولانا فضل الرحمان کی خاموشی بھی قابل دید ہے یہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے طرز سیاست سے مایوسی بھی ہو سکتی ہے۔ مولانا نے تو اور بساط بچھائی تھی لیکن ان کی اتحادی مسلم لیگ ن اور سابقہ اتحادی پیپلز پارٹی نے انہیں مات دے دی۔ اصل میں مولانا کو بھی کے پی کے کے بلدیاتی انتخابات میں پذیرائی کے بعد سرنگ کے اس پار کچھ روشنی نظر آ رہی ہے اس لیے آج کل ان کا وہ طمطراق نظر نہیں آتا کیونکہ انہیں بھی علم ہے کہ تحریک انصاف کا نیا بلدیاتی نظام کتنا مضبوط ہے اور یہ نظام ان کے لیے اگلے انتخابات میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ مولانا مسلم لیگ ن سے تو مایوس تھے ہی آصف علی زرداری نے بھی انہیں گھاس نہ ڈالی بلکہ اخباری اطلاعات کے مطابق پی ڈی ایم کی جگہ ایک نیا اپوزیشن اتحاد بنانے کی تجویز دے دی۔ آصف علی زرداری بھی حصہ بقدر جسہ کے مصداق اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کے منتظر ہیں اور لگ رہا ہے کہ ان کا سارا فوکس تخت سندھ کو بچائے رکھنا ہو گا باقی ملک میں ان کا سیاسی مستقبل دھندلا دکھائی دے رہا ہے۔
قارئین اس ساری صورتحال سے ایک بات واضح ہے کہ مولانا کا 73 کے آئین کا تناظر ہو ، مسلم لیگ ن کا ووٹ کو عزت دو کا نعرہ یا پیپلز پارٹی کا جمہوری نظام کا نعرہ، یہ سب کچھ ایک ڈیل کی راہ تک رہا ہے۔ یہ ہے ہماری جمہوریت کی اصلیت۔
قارئین کالم کے بارے میں اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کریں۔