پنجاب تاریخی طور پر بیرونی حملہ آوروں کی آماجگاہ رہا ہے جنہوں نے یہاں آ کر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی اور مقامی آبادی کی روایات کو متاثر کیا ان میں محمود غزنوی سے لے کر مغلیہ خاندان اور اس کے بعد کے دور میں برطانوی سامراج شامل ہیں لیکن یہ سارے غیر ملکی ملک کر بھی مجموعی طور پر اس خطے کے رسم و رواج، کلچر ، ثقافت ، لباس، رہن سہن اور زبان میں وہ تبدیلیاں نہیں لا سکے جو وقت کی رفتار کے ساتھ اہل پنجاب نے بہ رضا و رغبت قبول کی ہیں۔ سب سے پہلے تو جدید پنجاب نے اپنے لباس کے سب سے پر وقار جزو یعنی پگ کو خیر باد کہا یہ پگ خاندان کی عزت و تکریم کا نشان ہوا کرتی تھی اور اس کی حفاظت ہر چیز پر مقدم تھی ذرا سی ہتک یا بے عزتی کو ’’پگ نوں لگ گیا داغ‘‘ کے مترادف سمجھا جاتا تھا لیکن جدید تعلیم اور جدید لباس کے تقاضوں میں پگ اب یا تو فائیو سٹار ہوٹل کے دربار یا ویٹرز تک محدود رہ گئی ہے البتہ ایک قدرے نیا رجحان شروع ہوا ہے کہ شادی کے روز بارات کے دن دولہا کو ٹوپی اور شیروانی پہنائی جاتی ہے یہ محض ایک ceremonial dress ہے جو صرف ایک دن کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس سے ہماری معاشرتی دو رنگی کی عکاسی ہوتی ہے اور یہ دو رنگی ہماری پوری معاشرتی زندگی کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
اس دو رنگی کی ایک معمولی سی مثال یہ ہے کہ ہمارے ہاں کا خوشحال طبقہ معاشرے کے مفلوک الحال طبقے سے عملاً تو بالکل الگ تھلگ ہے لیکن نمائشی طور پر یہ یک رنگی کا جعلی مظاہرہ کرتے رہتے ہیں اس طبقے کا کوئی فرد کبھی کسی ٹرک اڈے پر بنے چائے کے کھوکھے پر بیٹھ کر چائے پینا پسند نہیں کرتا لیکن ہر شہر کے پوش علاقوں میں ایسے ریسٹورنٹ کھلے ہیں جہاں ٹرک آرٹ تانگوں کے پہیے اور پرانا رکشہ کھڑا کر کے ایک جھوٹا ثقافتی ماحول پیدا کیا جاتا ہے اور شہر کے امراء کے بچے یہاں رات گئے تک مصنوعی غربت سے لطف اندوز ہوتے ہیں جہاں چائے کے ایک کپ کی قیمت کھوکھے پر دستیاب
چائے کے کپ سے 15 گنا زیادہ ہوتی ہے جس میں ٹیکس بھی شامل ہے۔
جدیدیت یا ماڈرن ازم کی سب سے بڑی یلغار پنجابی زبان پر ہوئی ہے ہماری نئی نسل پنجابی زبان سے نابلد ہے یہ شاید دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس سے غیر مقامی یا غیر پنجابی زبان میں بات کی جاتی ہے۔ اگر یہ جاری رہا تو پنجابی زبان جو اپنی اہم لغت یا vocabulary کو پہلے ہی کھو چکی ہے وہ رہی سہی حیثیت بھی برقرار نہیں رکھ پائے گی۔ پاکستانی پنجاب کے برعکس انڈین پنجاب میں سکھ کمیونٹی نے اپنے پنجابی لباس اور زبان کو محفوظ رکھا ہوا ہے جبکہ ہماری پنجابی اس وقت Endangered زبان ہے جس کے مفقود ہونے کا خاطر خواہ خطرہ ہے۔
وارث شاہ (1722-1798)ہماری پنجابی زبان کے بہت بڑے شاعر ہیں جس نے اپنے قلم کی طاقت سے رومانوی داستان ہیر رانجھا کو شہرۂ آفاق حد تک مقبولیت عطا کی ہے۔ ہیر وارث شاہ پنجابی زبان کی ایسی انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں قدم قدم پر آپ کو پنجاب کے گمشدہ کلچر اور زبان کے خزانے ملتے ہیں۔ زندگی سے رومانس ختم ہو جائے تو زندگی کے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں آپ موسم رنگ اور نغموں کی اہمیت سے نا آشنا رہتے ہیں۔ جس سے زندگی صرف پیسے کمانے والی اور پیسے گننے والی مشین کی سی ہو جاتی ہے۔
آج کے کالم میں آپ کو وارث شاہ کے پنجاب کی ایک صبح کا احوال بتانا ضروری ہے جو کہ وارث شاہ کے اپنے الفاظ میں ہے ان چند اشعار سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ وارث شاہ کا پنجاب آج کے پنجاب سے کتنا دلفریب اور نیچرل تھا۔ اس نظم میں شاہ صاحب نے رانجھے کے ایک صبح کے بیدار ہونے کا واقعہ بیان کیا ہے کہ وہ کس طرح اپنے دن کا آغاز کرتا ہے۔ گویا یہ پنجاب کی 200 سال سے زیادہ پرانی ایک صبح کی بات ہو رہی ہے اس میں آپ کو پرندوں کے نغموں کی گونج سنائی دے گی۔
چڑی چوکدی نال جو ٹرے پاہندی
پئیاں دوھ دے وچ مدھانیاں نی
جدوں صبح صادق ہوئی آن روشن
تدوں لالیاں آن چیچلا ندیاں نی
کاروبار دے وچ جہان ہویا
چرخے ڈاہندیاں پھرن مدھانیاں نی
پانی لاؤن نوں کامیاں کھوہ جتے
بیٹھے گا دھی تے لین جھلانیاں نی
لئیاں کڈھ پنجالیاں حالیاں نے
جنہاں سیئیاں بھوئیں نوں لانیاں نی
شروع حافظاں ورد قرآن کیتا
جنہاں منزلاں ست مکانیاں نی
یہ چند اشعار آج کے کسی بھی پنجابی کے لے ایک امتحانی پرچے کی حیثیت رکھتے ہیں کہ کیا آپ ان الفاظ کا مطلب سمجھتے ہیں۔ یہ نظم ہمیں دو صدیاں پہلے کے پنجاب میں چھوڑ آتی ہے جس میں بجلی سڑکیں گاڑیاں اور تیز رفتاری نہیں تھی لیکن زندگی کتنی سادہ و رنگین تھی قدرت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی مہلت تھی جس میں مدہانیوں کی آواز فضاؤں میں ایک میوزک کا درجہ رکھتی تھی اور پرندوں کے گیت سے صبح کے آغاز کی نوید ملتی تھی جس میں چرخے کی گونج کی اپنی ایک دلکشی تھی جو آج ناپید ہو چکی ہے۔ وہ کنوئیں بھی باقی نہیں رہے جن پر رہٹ لگا کر بیلوں کی جوڑی سے اس میں پانی نکالا جاتا تھا جو فضل کو سیراب کرتا تھا یہ پنجاب کے نہری نظام اور بندوبست (1911) سے پہلے کی باتیں ہیں جس میں بیلوں کو چلانے کے لیے کامے (ورکر) کا کردار تھا جو گادھی (لیور) پر بیٹھ کر بیلوں کو تیز کرتا تھا اور خود گادھی پر بیٹھ کر جھولے لیتا تھا۔ ان شعروں میں پنجالی کا ذکر ہے یہ لکڑی کا فریم ہے، بیلوں کو ہل جوتنے کے لیے اس کے اندر جوتا جاتا تھا جو اب تقریباً ناپید ہے۔ وارث نے عورت کو سوانی کہا ہے جس طرح اردو شاعری میں دو شیزہ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ بہرحال یہ بڑی دلچسپ اور مشکل پنجابی ہے ہمیں اس لیے بھی مشکل لگتی ہے کیونکہ ہم یہ زبان چھوڑ چکے ہیں۔ ہماری آنے والی برگر نسلیں تو خدشہ ہے کہ وارث شاہ کی پنجابی کو سمجھنا تو کیا اس کی خالی ریڈنگ اور تلفظ کی ادائیگی نہیں کر سکیں گے۔