مسلم لیگ ن کے سینیٹر جناب عرفان صدیقی تحسین کے مستحق ہیں کہ انھوں نے بھارت کے شہر بنگلور کے ایک حراستی مرکز میں بے بسی اور بے کسی کے عالم میں پڑی پاکستانی شہریت کی حامل لڑکی سمیرا کے حق میں سینیٹ میں آواز بلندکی تو چیئرمین سینیٹ جناب صادق سنجرانی کو بھی یہ رولنگ دینی پڑی کہ وزارت داخلہ و خارجہ سمیرا کیس میں پیش رفت کے بارے میں روزانہ کی بنیاد پر سینیٹ سیکرٹیریٹ میں رپورٹ جمع کروائیں۔ سینیٹر جناب عرفان صدیقی نے 14فروری کو سینیٹ میں کرناٹک کی بہادر مسلمان بیٹی مسکان کے بارے میں بحث کے دوران سمیرا کا معاملہ بھی اٹھایا تھا۔ مسکان کرناٹک کی وہی قابل فخر مسلمان بیٹی ہے جو حجاب و نقاب میں اپنی تعلیمی درس گاہ میں داخل ہوتی ہے تو انتہاپسند ہندووں کے مخصوص لباس میں ملبوس نوجوان ہندو لڑکے مسلم دشمنی پر مبنی نعرے لگاتے ہوئے مسکان کو گھیرے میں لیکرہراسا ں کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مسکان جواب میں اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتے ہوئے اپنی درسگاہ میں داخل ہو جاتی ہے۔ مسکان کے بارے میں ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو اس پر زبردست رد عمل سامنے آیا ۔ بی بی سی جیسے عالمی نشریاتی ادارے نے بھی اس بارے میں پروگرام پیش کیا۔ ہمارے ہاں بھی الیکٹرانک پرنٹ اور سوشل میڈیا میں اس کی بازگشت سنائی دی۔ اسی دوران پاکستان شہریت کی حامل لڑکی سمیرا کا معاملہ بھی سامنے آگیا۔ جو بھارتی جیل میں تین برس کی قید بھگتنے کے بعد گزشتہ 6ماہ سے بنگلور کے ایک مرکز "سٹیٹ ہوم فار وومن" میں اس امید پر اپنے شب و روز گزار رہی ہے کہ دہلی میں قائم پاکستانی سفارتخانے سے یا پاکستانی وزارت خارجہ اسلام آباد سے اس کی پاکستانی شہریت کی تصدیق ہواور وہ اپنے وطن پاکستان کی راہ لے۔
"نئی بات" کی معتبر اور باوقار خاتون کالم نگار محترمہ ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر نے "میسور میں محصور سمیرا"کے عنوان سے چھپنے والے اپنے کالم میں سمیرا کے معاملے میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ان کے مطابق سمیرا کا تعلق قطر میں مقیم ایک پاکستانی خاندان سے ہے۔ سمیرا نے چند برس قبل ایک مسلمان بھارتی لڑکے سے اپنی پسند کی شادی کی ۔ شادی کے بعداس کا خاوند بغیر ویزے کے اسے بھارت لے گیا وہاں متعلقہ اداروں کو سمیرا کے بغیر ویزہ کے بھارت میں مقیم ہونے کا پتا چلا تو سمیرا اور اس کے خاوند کو گرفتار کر لیا گیا۔ خاوند کی کچھ ہی عرصہ بعد ضمانت ہوگئی لیکن سمیرا کو تین بر س قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ سمیرا کو جیل میں ڈال دیا گیا جہاں اس نے چند ماہ بعد ایک بچی کو جنم دیا ۔ اس دوران اس کا خاوند
غائب ہو گیا تاہم انسانی حقوق کی کارکن ایک خاتون وکیل سہانا بسوا پٹنا نے اس کی قانونی مدد ہی نہ کی بلکہ اس پر عائد جرمانے کی رقم کی ادائیگی کے لیے چندے کے ذریعے ایک لاکھ روپے بھی اکٹھا کیا۔ سمیرا کی جیل سے رہائی کے بعد سہانا بسوا پٹنا نے ہی نہیں بلکہ خود سمیرا نے بھی اپنی پاکستانی شہریت کی تصدیق کے لیے پاکستانی سفارتخانے سے رابطہ قائم کیا۔ اس دوران کم و بیش 6ماہ کا عرصہ گزر گیا اورپاکستانی سفارتخانے سے کچھ جواب نہ ملاتو خاتون وکیل سہانا بسوا پٹنا نے بی بی سی سے رابطہ کرکے سمیرا کا پیغام پاکستان تک پہنچانے کی کوشش کی ۔ بی بی سی پر سمیرا کا معاملہ سامنے آیا تو ہمارے میڈیا میں بھی اس کا تذکرہ ہونے لگا۔ سینیٹر جناب عرفان صدیقی جو ماشاء اللہ انتہائی پڑھے لکھے ، ٹھوس فکر اور مثبت سوچ کے حامل سنجیدہ خو پارلیمنٹیرین ہی نہیں ہیں بلکہ ماضی قریب کے ایک نامور کالم نگار اور صاحب فکر و مطالعہ تجزیہ کار کی شہرت بھی رکھتے ہیں ۔ انھوں نے اس معاملے کو پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں سامنے لانے میں کوئی تاخیر نہ کی۔
14فروری کو جناب عرفان صدیقی نے سینیٹ میں اپنے خطاب میں جہاں کرناٹک کی بہادر مسلمان لڑکی مسکان کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا کہ مسکان نے ایک بار پھر دو قومی نظریہ پر تصدیق کی مہر ثبت کرکے براہمنی سمراج کو دنیا بھر میں بے نقاب کیا ہے وہاں انھوں نے پاکستان کی بیٹی سمیرا کے مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ سمیرا بھی مسکان کے شہر بنگلور کے ایک دارلامان میں بیٹی وطن واپس آنے کے دن گن رہی ہے۔ اس کی وکیل سہانا بسوا پٹنا کے مطابق 6ماہ سے وہ دہلی میں پاکستانی سفارتخانے اور پاکستان میں وزارت خارجہ سے رابطہ کر رہی ہے تاکہ سمیرا کی پاکستانی شہریت کی تصدیق حاصل کر سکے۔ لیکن اسے کامیابی نہیں ملی۔ جناب عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ مسکان سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے پاکستان کی بیٹی سمیرا کا بھی کچھ سوچا جائے۔ اور قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم یہ معاملہ حکومت کے سامنے لے جائیں۔ چیئرمین سینیٹ نے رولنگ دی کہ سینیٹر عرفان صدیقی اور قائد ایوان مل کر اس کا لائحہ عمل بنائیں۔
سینیٹر جناب عرفان صدیقی کے سینیٹ میں اس خطاب کی بازگشت 17فروری کو ایوان میں دوبارہ سنائی دی۔ چیرمین سینیٹ جناب صادق سنجرانی نے اس موقع پر جب ساری اپوزیشن چیئرمین سینیٹ اور حکومت کے رویے کے خلاف احتجاجاً واک آوٹ کر چکی تھی ، جناب عرفان صدیقی کا نام پکار کر کہا کہ وہ ایک اہم مسئلہ پر بات کرنا چاہتے تھے۔ اس پر جناب عرفان صدیقی سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی کی اجازت سے ایوان میں واپس آئے اور انھوں نے سمیرا کے معاملے پر ایک بار پھر اظہار خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 5دن قبل انھوں نے سمیرا کا معاملہ ایوان میں اٹھایا تھا لیکن وزارت خارجہ یا حکومت کی طرف سے اس بارے میں یہاں ایک لفظ تک نہیں کہا گیا۔ یہ حکومتی بے حسی کا نہایت افسوس ناک مظاہر ہ ہے۔ سمیرا پاکستان کی بیٹی ہے جو تین سال تک جیل میں بند رہی۔ لیکن اس سے کسی نے پوچھاتک نہیں ۔ اس کی رہائی کے لیے ایک لاکھ روپیہ جرمانہ بھی بنگلور کے لوگوں نے چندے سے اکٹھا کیا لیکن دہلی میں پاکستانی سفارتخانہ سویا رہا۔ معاملہ سینیٹ میں آنے کے بعد بھی کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔ وزیر خارجہ یا ان کی وزارت کے سیکرٹری ایوان میں وضاحت کے لیے آئے نہ ہی دہلی میں پاکستانی سفارتخانے نے اس بارے میں کوئی بیان جاری کیا۔ جناب عرفان صدیقی کے اس خطاب کے بعد چیئرمین سینیٹ کی یہ رولنگ سامنے آئی کہ وزارت خارجہ و داخلہ سمیرا کے بارے میں روزانہ کی پیش رفت کی رپورٹ سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرایا کریں گے ۔ جناب چیئرمین کی اس روولنگ اور تازہ ترین اطلاحات کہ نادرا نے سمیرا کی پاکستانی شہریت کی تصدیق کر دی ہے کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ جناب عرفان صدیقی کی آواز صدا بہ صحرا ثابت نہیں ہوئی اور وہ ایک اہم معاملہ کو پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں مناسب پذیر ائی دلوانے میں کامیاب رہے۔
یہاں یہ کہنا کوئی ایسا بے جا نہیں ہوگا کہ آج جناب عرفان صدیقی جیسے ذمہ دار ، سنجیدہ ، صاحب بصیرت اور قوم کا سچا درد رکھنے والے اور معاملات و مسائل کو اپنے صحیح تناظر میں سمجھنے اور پیش کرنے والے افراد قوم کی حقیقی ضرورت ہیں۔ بلاشبہ اس طرح کے لوگ قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے بہت سارے معاملا ت طے ہی نہیں کیے جا سکتے بلکہ ضد ، انتقام اور نفرت کے جذبات کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔ عرفان صدیقی صاحب کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے کہ ان کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے ۔ وہ مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نواز شریف کے انتہائی قریبی اور بااعتماد ساتھی ہیں لیکن ان کی شخصیت کا خوب صورت پہلو یہ ہے کہ ان کے مخالفین بھی ان کی شخصی خوبیوں کی وجہ سے ان کا احترام کرتے ہیں۔ سینیٹ میں ان کا وجود قومی سیاست کے لیے ایک اچھی علامت ہے۔ سینیٹ میں قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم جو ایک زمانے میں ان کے شاگرد رہے ہیں ان سے خوشگوار تعلقات کی بنا پر انھوں نے سمیرا کے معاملے میں جو مثبت پیش رفت حاصل کی ہے یقینا قابل تحسین ہے۔