پاکستان کی سیاسی تاریخ کبھی بھی لائقِ تحسین نہیں رہی۔ آمریت ہو یا جمہوریت، ہر دَور میں استحصالی قوتیں ہی عوام پر مسلط رہیں۔ ایوبی آمریت سے 2018ء تک کب کسی نے عوام کے دکھوں کا مداوا کیا یا کرنے کا سوچا۔ زیادہ سے زیادہ یہ موازنہ کیا جا سکتا ہے کہ کِس سیاسی جماعت کا دَور نسبتاََ بہتر رہا لیکن یہ ہرگز درست نہیں کہ قوم کسی بھی دَور میں جمہوری ثمر سے مکمل طور پر مستفید ہوئی۔ یہ بھی عین حقیقت کہ جمہور کو یہ موقع ہی نہیں دیا گیا کہ وہ مکمل آزادی کے ساتھ اپنے نمائندے منتخب کر سکے۔ اِس کے لیے اشرافیہ نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جس کے ذریعے عوام کو سیاسی شعور سے دور رکھا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جمہوری یا آمرانہ دَورِ حکومت میں تعلیم وتعلم کی طرف کم ترین توجہ دی گئی۔ دَورِ حاضر میں صورتِ حال یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں حصولِ علم محض مذاق کے مترادف اور اشرافیہ کے نجی اداروں کی فیسیں عامیوں کی پہنچ سے بہت دور۔ وفاقی وزیرِتعلیم شفقت محمود لاکھ دعوے اور وعدے کرتے پھریں، عملی طور پر نتیجہ صفر۔
میدانِ سیاست کی انتخابی تاریخ بھی ہمیشہ تنقیدوتنقیص کی زد میں رہی۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے پہلے انتخابات منعقدہ1970ء آزادانہ اور غیرجانبدارانہ تھے لیکن حقیقت یہ کہ اُس وقت کے صدرِپاکستان جنرل یحییٰ نے بھرپور کوشش کی کہ کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کر سکے تاکہ اُس کی صدارت کو کو ئی خطرہ نہ ہو۔ شنید ہے کہ حصولِ مقصد کے لیے یحییٰ خاں نے کچھ سیاسی جماعتوں میں رقوم بھی تقسیم کروائیں لیکن وہ اپنے مقصد میںناکام رہا۔ 1977ء سے 2013ء تک کے تمام انتخابات تنقید کی زَد میں رہے اور دھاندلی کے خلاف تحریکیں بھی اُٹھتی رہیں۔ یوں توسبھی عام انتخابات میں کسی نہ کسی حد تک اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ نظر آتا رہا لیکن 2018ء کے انتخابات سے تو پہلے ہی فضاؤں میں مائنس وَن اور مائنس ٹو کی گونج سنائی دینے لگی تھی۔ پھر نتیجہ وہی نکلا جو مقتدر قوتوں نے چاہا۔ یوں تو اقتدار کا ہُما عمران خاں کے سر پر بٹھا دیا گیا لیکن جب کبھی کوئی غیرجانبدار مورخ پاکستان کی تاریخ لکھے گا تو اسٹیبلشمنٹ کے اِس فیصلے کو تحسین کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔
جب سے قلم سنبھالا ہے، وہی لکھا جسے سچ جانا۔ اِس کی گواہی میرے وہ ہزاروں کالم جن میں میں نے پیپلزپارٹی اور نوازلیگ کی طرزِ حکمرانی پر کھُل کر تنقید کی البتہ اُن کے اچھے کاموں کی ستائش میں بھی بُخل سے کام نہیں لیا۔ ہماری شدید خواہش تو یہی رہی کہ عمران خاں بھی میدانِ سیاست میں کوئی اچھا کام کر جاتے تاکہ اُن کی بھی کچھ مدح سرائی کی جا سکے لیکن گہرائی میں اُتر کر بھی ہمیں سیاسی حوالے سے اُن کا کوئی کارنامہ نظر نہ آیا۔ اِسی لیے اکثر
سوچتے ہیں کہ اگر خاںصاحب سیاسی گٹر میں اُترنے کی بجائے رفاہی کاموں میں جُتے رہتے تو شوکت خانم کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے کئی عظیم الشان منصوبے معرضِ وجود میں آجاتے۔ اِس صورت میں خاںصاحب ایک ہیرو کی طرح حیاتِ جاوداں پا جاتے لیکن اُنہیں تو ’’شیروانی‘‘ پہننے کا شوق ہی بہت تھا۔ خاںصاحب کا میدانِ سیاست میں اُترنے کا فیصلہ نہ صرف غلط ثابت ہوا بلکہ اُن کی شخصیت کے کئی خفیہ گوشے بھی عیاں کر گیا۔ وقت نے ثابت کیا کہ اُن کے اندر دُکھی انسانیت کی خدمت کرنے والا نہیں بلکہ ایک فاشسٹ بیٹھا ہے جو اپنی راہ میں آنے والی ہر شے کو خس وخاشاک کی طرح بہا دینا چاہتا ہے۔ شاید اِسی وجہ سے کچھ عرصہ پہلے تک اُن کا نعرہ سونامی تھا۔ اُن کے چاہنے والے آج اُن کی شخصیت اور کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ضرور سوچتے ہوںگے کہ اُن کے ممدوح کا تو یہ عالم ہے ’’تَن ہمہ داغ داغ شُد، پنبہ کجا کجا نہم‘‘۔ اِسی لیے جب مدح سراؤں کو کچھ اور نظر نہیں آتا تو وہ 92 کے ورلڈ کپ کا ذکر لے بیٹھتے ہیں یا پھر شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی کا۔ اگر پھر بھی بات نہ بنے تو ملک کی تباہی کا سارا ملبہ پیپلزپارٹی اور نوازلیگ پر ڈال کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اگر اُنہیں کہا جائے کہ بین الاقوامی سرویز تو کوئی اور ہی کہانی سنا رہے ہیں تو اُن کا گھڑا گھڑایا جواب ہوتا ہے کہ یہ سارے سرویز غلط، بے بنیاد اور خاںصاحب کے خلاف سازش ہیں۔ اہلِ فکرونظر خوب جانتے ہیں کہ اُنہوں نے قوم سے کیا گیا کوئی ایک وعدہ بھی وفا نہیں کیا۔ اُن کے دکھائے گئے سارے ہی سپنے سراب ثابت ہوئے اور اُنہوں نے قوم کو ایسے ’’سبزباغ‘‘ دکھائے کہ پھولوں کے آرزومندوں کے دامن کانٹوں میںاُلجھ گئے۔
خاںصاحب کے وعدوں اور دعووں کی فہرست بڑی طویل جس میں سرکھپانا محض وقت کا زیاں البتہ بطور معلم ہمیں اگر کوئی دُکھ ہے تو یہ کہ اُنہوں نے قوم، خصوصاََ نسلِ نَو کا مزاج ہی بگاڑ کے رکھ دیا۔ شنید یہی کہ جو سب سے زیادہ جھگڑالو، بدتمیز اور مغلظات بکنے والا ہو، وہی اُن کا مقرب ومحبوب۔ اِسی لیے حصولِ قربت کے متمنی بَد مزاجی وبد لحاظی کے زور پر ہمہ وقت اپوزیشن کو رگیدنے کے لیے تیار۔ شیخ رشید، مراد سعید، فیصل واوڈا، فیاض چوہان اور فردوس عاشق اعوان کے بعد اب عظیم شاعر احمد فراز کا بیٹا شبلی فراز بھی اِسی گٹر کی نذرہو چکا۔ سیاست میں الزام تراشی اور غیرپارلیمانی الفاظ کا استعمال کرتے وقت خاںصاحب نے سوچا تک نہیں کہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر مارنے والا احمق ہوتا ہے۔ اب بَدقسمتی سے نوبت ذاتیات تک آن پہنچی ہے۔ خاتونِ اوّل ہمارے لیے انتہائی محترم اور اُن کے خلاف کہا یا لکھا گیا ایک لفظ بھی گوارا نہیں کیونکہ عورت خواہ ماں ہو یابیٹی، بہن ہو یا بیوی، ہر حوالے سے واجب الاحترام کہ دینِ مبیں کا سبق یہی۔ سوال مگر یہ کہ کیا بسترِمرگ پر پڑی بیگم کلثوم نواز خاتون نہیں تھیں؟۔ اُن کی بیماری کے خلاف یوتھیوں نے جو گند اُچھالا اور جس طرح سے وہ ہسپتال میںجعلی ڈاکٹروں کے روپ میںگھُسے، اُس کا بدلہ کون لے گا؟۔ کیا وزیرِاعظم صاحب نے کبھی اُن یوتھیوں کی سرزنش کی؟۔ کیا مریم نواز خاتون نہیں جس کے خلاف وزیروں، مشیروں کی زبانیں ہمیشہ دراز رہتی ہیں؟۔ جب علی امین گنڈا پور نے کشمیر میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز کے چہرے کے حوالے سے بیہودہ الزام لگاتے ہوئے کہاکہ اِس کا پیسہ بھی قومی خزانے سے خرچ ہوا، تو کیا اُس پر خاںصاحب نے کوئی ایکشن لیا؟ یا پھر علی امین کی پیٹھ تھپتھپائی۔ جب شہباز گِل نے جنیدصفدر کی شادی کے موقعے پر مریم نواز اور مریم اورنگ زیب کے ملبوسات پر ٹویٹ کیا تب ریاستِ مدینہ کی تشکیل کا داعی کہاں سویا ہوا تھا؟۔ شہبازگِل وہی شخص ہے جو تقریباََ ہر اینکر سے اپنی ’’عزت‘‘ کروا چکا ہے۔ اِسی شہبازگِل نے معروف اینکرپرسن ثنا بُچہ کے بارے میں کہا کہ مریم نواز اُس کی مالکن ہے۔ جب ثنا بُچہ سے کسی نے اِس ٹویٹ پر ردِعمل دینے کو کہا تو اُس نے جواب دیا ’’یہ کہتے نہیں تھکتے کہ مائیں اور بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں تو اِن کو سوچنا چاہیے کہ میں بھی کسی کی بیٹی ہوں۔ اُنہوں نے میرے خلاف جو زبان استعمال کی، میرے پاس اِس کے رَدِ عمل کے لیے بالکل الفاظ نہیں ہیںکیونکہ میں بھونکتے ہوئے کتّوں کو جواب نہیں دیتی‘‘۔ عاصمہ شیرازی، غریدہ فاروقی اور نسیم زہرہ بھی خواتین ہی ہیں جن کے خلاف شہبازگِل سمیت یوتھیوں نے زہر اُگلنے میںکوئی کسر نہیں چھوڑی۔
صرف خواتین ہی نہیںیوتھیے تو سوشل میڈیا پر مردوں کے بارے میں بھی ایسے ٹویٹ کرتے ہیں کہ سَر شرم سے جھُک جاتے ہیں لیکن وزیرِاعظم نے شہبازگِل کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے اُسے یوتھ افیئرز کا فوکل پرسن بنا دیا ہے۔ اب پتہ نہیں یہ فوکل پرسن یوتھ کے ذریعے سوشل میڈیا پر کیا گُل کھلائے گا۔ آخر میں تسلیم کہ وزیرِاعظم کے سابقہ دستِ راست مرزا محسن بیگ نے ریحام خاں کی کتاب کا حوالہ دے کر غلط کیالیکن جس انداز سے چادر اور چاردیواری کا تقدس مجروع کرتے ہوئے اُس کے گھر پر بار بار چھاپے مارے گئے، کیا یہ عمل قابلِ مذمت نہیں؟۔ یاد دلاتے چلیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کے لیے ایف ایس ایف تشکیل دی۔ آج کے حکمران وہی کام ایف آئی اے اور نَیب سے لے رہے ہیں جو بھٹو نے ایف ایس ایف سے لیا لیکن شاید وہ بھٹو کا انجام بھول چکے۔