اس ملک میں اسلام کو سیاست میں فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ریاست مدینہ کا نعرہ بھی محض سیاسی فائدے کے لیے تھا اور ابھی بھی اس سے فایدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ریاست مدینہ محض نعرہ نہیں ہے بلکہ ایک مکمل نظام کا نام ہے اور موجودہ حکمران اس کے خصوصیات اور تقاضوں سے نا بلد ہیں۔ مدینہ کی ریاست فلاحی ریاست تھی جہاں پر ریاست لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کی ضامن تھی۔ پاکستان میں اگر اس سمت آگے بڑھنا ہے تو ابھی بہت سا فاصلہ طے کرنا باقی ہے۔ مدینہ کی طرز کی ایک مکمل اسلامی ریاست بعد میں کہیں نہیں بنی ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس ریاست کی خصوصیات کو دوسری ریاستوں نے اپنایا اور عوام کو فایدہ پہنچایا۔ اس اسلامی ریاست میں عوام کی حکومت میں براہ راست شراکت موجود تھی اور وہ حکمران کو ایک منٹ میں کٹہرے میں کھڑا کرنے کی جرات رکھتے تھے۔ اس اسلامی ریاست میں حکمرانوں کے خلاف بات کرنے والوں کا ناطقہ بند کر دیا جاتا ہے۔ ان پر مقدمات درج کیے جاتے ہیں اور انہیں پابند سلاسل کر دیا جاتا یے۔ قوانین عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے اپنے اختیارات، مراعات اور سہولیات کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ریاست مدینہ کا نعرہ بلند کر کے جو کام ہو رہے ہیں وہ اصل میں اس کی توہین کے مترادف ہیں۔ کہتے ہیں کہ شکل مومناں کرتوت کافراں۔ آپ کا دل اور دماغ جب تک ساتھ نہیں ہوگا آپ کس طرح ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں۔ اسلامی نظام اس ملک میں کہاں آنا تھا، اسلامی نظام کی آڑ میں مغربی جمہوریت کو اس انداز میں مسلط کیا گیا کہ اس سے جمہوریت کی اصل روح کو نکال لیا گیا اور تمام تر اختیارات چند اداروں کو دے دیے گئے۔ عوام کی حکومت عوام کے لیے عوام کے ذریعے کے نعرے والی جمہوریت اس وقت مقبول ترین نظام ہے اور جہاں جہاں یہ نظام رائج ہوا ہے وہاں پر لوگوں کو راحت ہی ملی ہے۔ جہاں پر عوامی حکمرانی کی بجائے چند اداروں نے حق حکمرانی حاصل کر لیا اور اس کے لیے اسلام کو ایک جواز کے طور پر استعمال کیا گیا اس کے اثرات منفی آئے ہیں۔ صرف مدینہ کی ریاست کا نعرہ لگانے سے مدینہ کی ریاست نہیں بنے گی بلکہ اس کے لیے مکمل نظام کو اپنانا ضروری ہے۔ معاشی خودمختاری کے بغیر ریاست مدینہ کا تصور بھی محال ہے۔ کون بدبخت ہے جو اس ریاست کی خواہش نہیں کرے گا جس میں ذمیوں کے حقوق کا تعین بھی تھا، غلاموں کے حقوق بھی تھے اور خواتین کو بھی اس وقت کے زمانے میں سب سے زیادہ حقوق دیے گئے تھے۔ریاست کے اندر بھیک لینے والے کوئی نہیں تھا اور یہاں بھیک مانگ کا آغاز ہی حکمران سے ہوتا ہے۔ سودی نظام کے اندر رہ کر آپ اس نظام کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ ریاست مدینہ کے فیصلے خلیفہ وقت کرتا تھا نہ کہ اس کے فیصلے کسی اور ریاست یا ادارے سے ہوتے تھے۔ یہاں ٹیکس لگانے سے لے کر بڑے بڑے معاشی فیصلے کرنے کا اختیار کسی اور کے پاس ہے۔ ہم محض تماشائی ہیں۔ یہ ریاست مدینہ کی ابتدائی شکل بھی نہیں۔
ایک ایسے موقع پر جب حکومت پر چاروں طرف سے تنقید ہو رہی ہے ایسے میں حکومت کے وزیر مذہبی امور نے عورت مارچ پر پابندی لگانے کے لیے وزیراعظم کو خط لکھ دیا ہے اور اس کی بجائے اس دن کو بین القوامی سطح پر حجاب ڈے کے طور پر منانے کی سفارش کی ہے۔ بھارت میں اس وقت حجاب کے حوالے سے ایک طوفان مچا ہوا ہے۔ پاکستان کی جانب سے حجاب ڈے کی بات اس ماحول میں کی جا رہی ہے تو اس پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ دوسرے دنوں کی طرح عورتوں کے حقوق کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے اور اس کا مقصد دنیا بھر کے معاشروں کو خواتین کے حقوق کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہے۔ عورتوں کے عالمی حقوق کے دن کو صرف عورت مارچ سے جوڑنا یا عورت مارچ میں بیہودہ پلے کارڈ کو بنیاد بنا کر یہ استدلال اختیار کرنا کہ اس پر پابندی عائد کر دی جائے، احمقانہ کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اس ملک میں عورتوں کو ان کے حقوق دینے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ضروری یے۔ انہیں تعلیم، جائیداد، ملازمت کے حق سمیت بہت سے دوسرے حقوق دینے پر بات ہونی چاہیے اور ان حقوق کی بات کرنا عین اسلام ہے لیکن ذومعنی بینرز اس دن کو منانے کی روح کے منافی ہیں۔ اس دن عام عورتوں کے ایشوز کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اس دن کو مذاق بنا لیا جائے۔ عورتوں کے حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ٹرانسجینڈرز کو عورتوں کے حقوق کے چمپئین کے طور پر سامنے لایا جاتا ہے۔ اس روش کو بدلنے کی ضرورت ہے اور ایسی این جی اوز کا احتساب ہونا چاہیے۔ ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے عالمی حقوق کا عالمی دن متنازعہ بن گیا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ وفاقی وزیر مذہبی امور عورتوں کے حقوق کے عالمی دن کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کا استدلال بھی وہی ہے جس کی جانب ہم نے اوپر سطور میں اشارہ کیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت مارچ پر بھی پابندی عائد کر دی جائے۔ یہ لوگوں کی شخصی آزادی کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔ ہر شخص کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کا حق ہے اور ایک ایسے معاشرے میں جہاں عورتوں کے حقوق پامال ہو رہے ہوں وہاں اس قسم کے مارچ ضرور ہونے چاہیں لیکن چند افراد کی سوچ اور ایک گروہ کی معاشرتی اقدار یا پورے معاشرے کی اقدار کے طور پر پیش کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے۔ عورت مارچ کے منتظمین جان بوجھ کر ذومعنی نعرے اور پلے کارڈ تیار کرتے ہیں۔ ان کی فنڈنگ کے معاملات اپنی جگہ لیکن انہیں اس بات کو بھی دیکھنا چاہیے کہ ان حرکات کی وجہ سے وہ معاشرے کے ایک بڑے حصے کی تائید و حمایت سے محروم ہو رہے ہیں۔ ان کی ان حرکات کی وجہ سے وہ لوگ جو عورتوں کے حقوق کو جائز مانتے ہیں وہ بھی اس کی حمائت کرنے سے معذرت کر لیتے ہیں۔
پاکستان میں عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بے شمار این جی اوز ہیں لیکن چند این جی اوز جان بوجھ کر اس ایجنڈے کو پروان چڑھا رہی ہیں۔ ان کے ساتھ گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔ اس دن ملک بھر میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے ملک بھر میں سیمینار ہوں، واک اور مارچ کا اہتمام بھی ہو لیکن یہ سارا معاملہ مادر پدر آزاد نہ ہو۔ آزادی کا مطلب ہر قسم کی آزادی نہیں ہے بلکہ آزادی کی بھی کچھ حدود وقیود ہیں۔ وفاقی وزیر مذہبی امور کو بھی اس طرح کے خط لکھ کر اور پابندی کی سفارش کر کے سیاسی فائدے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ عورت مارچ کے شرکا کو بتانا چاہیے کہ ان کی حکومت نے عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کیا کیا اقدامات کیے ہیں۔ ان کے اس طرز عمل سے لگ یہی رہا ہے کہ شائد حکومت کے پاس ان تمام سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے اور جواب دہی کے عمل سے بچنے کے لیے عورت مارچ پر پابندی کی بات ہو رہی ہے۔
بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے یہ بیانات بھی سامنے آئے ہیں کہ عورت مارچ کو بزور طاقت روکا جائے گا۔ پہلے بھی عورت مارچ پر پتھراؤ ہوا تھا۔ اب بھی یہی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کسی بھی جگہ تصادم ہو سکتا ہے۔ مارچ کے شرکا اور منتظمین کی جان کی حفاظت حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے اور اسے یہ ذمہ داری پوری کرنا چاہیے۔ عورت مارچ کو ایک حق کے طور پر تسلیم کرنا ضروری ہے نہ کہ اس پر پابندی عائد کی جائے، ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ منتظمین کو یہ بتایا جائے کہ انہیں مارچ کی آزادی ہے مادر پدر آزادی نہیں ہے کہ وہ معاشرے کو اپنی مرضی سے ترتیب دینے کے ایجنڈے کو آگے بڑھائیں۔