اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کسی جج کو کوئی مقدمہ سننے سے نہیں روک سکتی۔ اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کے خلاف کیس میں جسٹس فائز عیسی کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ چیف جسٹس نے ٹھوس وجوہات کے بغیر جج پر جانبداری کا الزام لگایا، آئین کسی جج کو دوسرے جج کے دل میں جھانک کر جانبداری کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دیتا، مقدمہ کے فیصلے سے چیف جسٹس کی ساکھ پر سوالات اٹھ رہے ہیں، سپریم کورٹ کسی جج کو کوئی مقدمہ سننے سے نہیں روک سکتی۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم کا بیان آئین کے خلاف اور مقدمے کا اختتام حیران کن تھا، حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ووٹوں کی خردوفروخت کا کہہ رہی ہیں، سینیٹ الیکشن سے قبل وزیراعظم نے اراکین کو ترقیاتی فنڈز دینے کا کہا، الیکشن کمیشن نے بھی ترقیاتی فنڈز کے اعلان کا نوٹس نہیں لیا، وزیراعظم کے صرف آئینی اقدامات کو قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ اٹارنی جنرل نے تحقیقات کے بجائے جج کو شکایت کنندہ بنانے کی کوشش کی، تمام ججز کے دستخط ہونے تک حکمنامہ قانونی نہیں ہوسکتا، وزیراعظم نہیں صدارتی ریفرنس کیخلاف درخواست دائر کی تھی، دیگر 13 افراد کیساتھ وزیراعظم کو بھی فریق بنایا گیا تھا، اگر وزیراعظم کو فریق بنانا وجہ تھی تو فریق بنچ کے تین ججز بھی تھے، سپریم جوٖیشل کونسل کا حصہ تین ججز بھی بنچ میں شامل تھے۔
اختلافی نوٹ میں ہے کہ تحقیقات کے بجائے سپریم کورٹ جج کو آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے روکا گیا، پانچ رکنی بنچ کی تشکیل اور جسٹس مقبول باقر کو شامل نہ کرنے پر اعتراض کیا تھا، چیف جسٹس نے بنچ کی تشکیل پر اعتراض کا تحریری یا زبانی جواب نہیں دیا، ریکارڈ کے مطابق چیف جسٹس کے زبانی حکم پر 5 رکنی لارجر بنچ بنایا گیا، 10 فروری کے حکمنامہ میں کسی جج کو سماعت نہ کرنے کی کوئی ہدایت نہیں تھی، اٹارنی جنرل نے بھی بنچ میں شامل کسی جج پر اعتراض نہیں کیا تھا، واٹس ایپ پر ملنے والی دستاویزات کھلی عدالت میں ججز اور حکومتی وکلا کو دیں، دستاویزات کی تصدیق نہ ہوتی تو بات وہیں ختم ہوسکتی تھی۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا اختلافی نوٹ میں کہنا ہے کہ وزیراعظم کیخلاف مقدمہ نہ سننے کا مطلب ہے جج صرف پرائیویٹ کیسز سن سکتا ہے، عمران خان کو ذاتی طور نہیں جاتنا تو جانبدار کیسے ہوسکتا ہوں، جانبداری کا الزام عمران خان خود لگا سکتے تھے، اٹارنی جنرل ان کے ذاتی وکیل نہیں، تمام ججز کے دستخط نہ ہونے پر مقدمہ ختم نہیں ہوا بلکہ زیرالتوا ہے، دعا ہے عدلیہ آئین کی ہر خلاف ورزی اور اختیارات کے غلط استعمال کیخلاف کھڑی ہو۔