اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم اسحاق کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری پر سماعت کے دوران اہم ریمارکس دیے اور ملزم کو گرفتار کرکے جیل حکام کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔ اس دوران عدالت نے ریاستی اداروں کی سیاسی سرگرمیوں اور ملک کی موجودہ صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ "ریاست حکومت گرانے اور لانے میں مصروف ہے، تمام ادارے سیاسی مخالفین کے پیچھے پڑے ہیں۔" ان کا کہنا تھا کہ "اگر آئین پر عمل ہوتا تو ملک میں اس نوعیت کی صورتحال نہ ہوتی۔" انہوں نے مزید کہا کہ "یہ ادارہ اتنا سچ بولتا ہے جتنا ہمارا معاشرہ، اور 40 سال بعد منتخب وزیراعظم کے قتل کا اعتراف کیا گیا، ایسا جرم بڑا اور سنگین ہے کہ جس پر فوری کارروائی کی جانی چاہیے تھی۔"
سپریم کورٹ کے دیگر ججز نے بھی اس موقع پر ریاستی اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا، "ریاست کی کیا بات کریں؟ تین وزرائے اعظم مارے گئے، ان کے کیسز کا کیا بنا؟ بلوچستان میں ایک سینئر جج بھی مارا گیا، لیکن کچھ نہیں ہوا۔" انہوں نے یہ بھی کہا کہ "اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومتی اداروں میں کچھ کرنے کی خواہش نہیں ہے۔"
جسٹس جمال مندو خیل نے مزید کہا کہ "پنجاب اور سندھ میں پولیس کی تفتیش کا معیار بہت ناقص ہے، اور جب تک ریاستی ادارے سیاسی انجینئرنگ میں مصروف رہیں گے، حالات بدلے نہیں گے۔" ان کا کہنا تھا کہ عوام اداروں پر یقین نہیں رکھتے اور یہ چاہتے ہیں کہ تمام مسائل سپریم کورٹ حل کرے۔
جسٹس ملک شہزاد نے کہا کہ "اگر وزیراعظم کا یہ حال ہو، تو عام عوام کا کیا حال ہوگا؟ وزیراعظم ایک دن پرائم منسٹر ہاؤس میں ہوتا ہے، تو دوسرے دن جیل میں ہوتا ہے، اور کسی کو معلوم نہیں کہ وزیراعظم کب تک رہے گا۔"
بعد ازاں، سپریم کورٹ نے ملزم اسحاق کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا اور پولیس کو ہدایت کی کہ وہ اسے جیل حکام کے حوالے کرے۔