پنجاب میں ایک اور ضمنی الیکشن کی ہار حکومتی پارٹی تحریک انصاف کی بد حالی پر بال کھولے بین کر رہی ہے، جس کی آوازیں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور پنجاب پارٹی کے بڑوں تک شائد نہیں پہنچیں مگر وزیر اعظم عمران خان اس پر برہم ہیں ، اور اب شکست کے اسباب ڈھونڈے جا رہے ہیں جس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اب پچھتاوت کیا ہوت جب چڑیاں جگ گئیں کھیت۔ ماضی میں ضمنی الیکشن جس بھی پارٹی کی چھوڑی ہوئی سیٹ پر ہوئے ، ہمیشہ حکومت کے ہوتے تھے اور اپوزیشن کو بھی یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کی ہار یقینی ہے مگر اب ہار کے بعد ہار ہی سامنے آ رہی ہے ،سیالکوٹ کی ایک سیٹ جیتنے میں حکومتی پارٹی ضرور کامیاب ہوئی تھی مگر اس کے کریڈٹ میں بھی اصل حصہ چودھری پرویز الہٰی اور خود جیتنے والی بریار فیملی کا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان لانگ ٹرم پالیسیوں کا وژن رکھتے ہیں،یہ بھی اپنی جگہ ایک ناقابل تردید سچائی ہے کہ عمران خان خود کرپٹ ہیں نہ ملکی وسائل کی لوٹ مار کا ان پر کوئی الزام ہے،مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان کی ٹیم اور ان کے ارد گرد موجود لوگوں کا کردار بھی ایسا ہی شفا ف ہے؟ کیا پی ٹی آئی کی حکومت کی طرف سے عوامی فلاح ،بہبود اور بھلائی کے لئے کئے گئے کام سامنے آ رہے ہیں ؟ وزیر اعظم صاحب آپ وفاقی وزیروں ،مشیروں ،ترجمانوں کو حوصلہ دیں ،عوام تو اب گھبرانا شروع ہو ہی چکے ہیں مگر آپ اپنی ٹیم کو تو گھبرانے سے روکیں ، ان کو متحرک کریں ،آخری دو سال شروع ہو چکے ہیں اور یہ سال الیکشن موڈ میں گزارے جاتے ہیں۔آپ متعدد مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے کردار اور محنت کی تعریف کر چکے ہیں، آپ کہتے ہیں کہ قوم عثمان بزدار کے کاموں کو یاد رکھے گی، اب تو بالکل یاد رکھے گی ۔کیا عثمان بزدار کو کوئی اچھی سیاسی یا انتظامی ٹیم آج تک نہیں مل سکی یا دی ہی نہیں گئی ،جسکی وجہ سے انکے کاموں کے ثمرات سے اب تک صوبہ کے عوام محروم ہیں،پنجاب کے دو اہم ترین محکموں ایکسائز اور ٹرانسپورٹ کے وزرا کو کوئی جانتا ہی نہیں کہ وہ کون ہیں اور کیا کر رہے ہیں ،ان کو متحرک کریں یا ان کو تبدیل کر دیں۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ پنجاب میں حکومت صرف ٹرانسپورٹ کی سبسڈی پر تیس ارب سالانہ خرچ کر رہی ہے اور کسی کو پتہ ہی نہیں ہے اور تو اور جو اس سے مستفید ہو رہے ہیں وہ بھی شکریہ ادا کرنے کو تیار نہیں ،اسے کمال ہی کہا جا سکتا ہے ،اس کے علاوہ بھی بہت زیادہ اچھے کام کئے جا رہے ہیں ،جن کا کسی کو پتہ ہی نہیں ، صحت کارڈ ایک ایسا کام ہے جو اب تک کے کاموں میں سب پہ بھاری ہے ،اس کام کو مخالفین بھی مان رہے ہیں مگر ضرورت ہے کہ اس کام کو اجاگر کیا جائے عوام کو اس کی افادیت ،اس کے طریق کا ر اور اس سے فائدہ اٹھانے کے متعلق آگاہی دی جائے ،جنوبی پنجاب صوبے اور اس کے عوام کے مسائل کے حوالے سے بے شمار خدشات سامنے آ رہے تھے جو دور ہوئے مگر اس کے باوجود ان کے کاموں اور کارکردگی سے عوام کو مکمل آگاہی نہیں مل رہی، وجہ ایک ہی ہے کہ ان کے پاس وژن رکھنے والی ،طویل المیعاد منصوبوں کو تیار کرنے والی ، مخلص، تجربہ کار،اہل اور دیانتدار سیاسی افراد کی متحد ٹیم نہیں۔ سیاسی ٹیم کا تو اللہ ہی حافظ ہے ،اس میں کام کرنے والے چند ایک ہی ہیں جن کے کام کو بھی سراہا نہیں جاتا ، باقی کے کاموں کو تو چھوڑیں ان کے ناموں کو بھی کوئی نہیں جانتا ،لگتا ہے وزرا کی فوج ظفر موج صرف جھنڈے اور ڈنڈے کا مزہ لوٹنے آئی ہے، جبکہ انتظامی افسران کی ٹیم اب کافی بہتر ہے ،ان میں سے بہت سارے اہل اور کام کرنے والے ہیں ، یہ سب لوگ چیف منسٹر اور چیف سیکرٹری کی ٹیم بن کر محنت سے کام کریں اور وہیں سے راہنمائی لیں۔
جو اہل اور اچھے سینئر افسران خاموشی سے کام کر رہے ہیں ،انہیں سامنے لائیں۔ وزیر اعظم صاحب،آپ کی حکومت کو اقتدار میں آئے چوتھا سال ہے مگر اب تک روز منزل طے کی جاتی ہے مگر راستوں کا چنائو نہیں کیا جاتا،راستے تو دور کی بات حکومت آج تک اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کابینہ اور انتظامیہ کی بہترین ٹیم تشکیل دینے سے قاصر ہے،المیہ یہ کہ آج 70سال بعد بھی ہم نظام حکومت کی تبدیلی پر سوچ بچار کر رہے ہیں،حالانکہ ہم نے کسی بھی نظام کی خوبیوں سے فائدہ اٹھانے کی کوئی عملی کوشش کی نہ خرابیوں سے دور رہنے کیلئے کوئی جتن کیا،کوئی بھی حکمران آیا اس نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنی ذات میں مرکوز کرنے کیلئے ہر غیرآئینی اور غیر جمہوری ہتھکنڈہ آزمایا،نتیجے میں پون صدی بعد بھی ہم ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے ان کی ترقی میں اہم کردار پالیسیوں کا تسلسل،طویل المیعاد منصوبہ بندی،اختیارات کی آئین کی رو سے نچلی سطح پر منتقلی اور بہترین ٹیم کا انتخاب ہے۔ہمارے حکمرانوں نے اقتدار کا منبع اپنی ذات کو بنانے کیلئے اختیارات کی تقسیم اور نچلی سطح پر منتقلی کی ہمیشہ مخالفت کی،نتیجے میں ابھی تک ہم مقامی حکومتوں سے محروم اور چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے محتاج ہیں،لیکن اگر حکمران طبقہ مقامی حکومتوں کیساتھ سرکاری مشینری کو بھی با اختیار بنا دیتا تو ملک کے اکثر مسائل از خود حل ہو چکے ہوتے،آج ہم اپنی ترقی کے گراف پر نگاہ دوڑائیں تو کسی بھی شعبے میں ہماری کارکردگی تسلی بخش دکھائی نہیں دیتی،اس کی بنیادی وجہ ضلعی انتظامیہ کی بے قدری،بیوروکریسی پر عدم اعتماد اور سرکاری مشینری کا عضو معطل ہونا ہے، اسے کیا کہیں ،کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم سبزیاں اور اجناس درآمد کرتے ہیں،زراعت کے گڑھ پنجاب سے تو سندھ حکومت نمبر لے گئی اور کسانوں کو گندم کی بہتر قیمت دیکر مستقبل کی گندم کی فصل کو ذخیرہ کر لیا،ہم ملکی کسان کو گندم کی فی من قیمت دو ہزار بھی نہیں دیتے مگر اسی گندم کو امپورٹ کرنے کے لئے فی من پچیس سو سے زیادہ لگا دیتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب، آپ کی کارکردگی،کردار اور محاسن پر لیکچر عوام نے بہت سن لیا،ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن کے قصے بھی بہت سنائے جا چکے اب کچھ کرنے کا وقت ہے۔ ضروری ہے کہ دستیاب ،سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کی فوج میں سے اہل ،دیانتدار،شفاف ماضی کے حامل افسروں کی ایک ٹیم تیار کی جائے اور اسے فری ہینڈ دے دیا جائے تو مختصر وقت میں تحریک انصاف حکومت اپنے منشور کو عملی جامہ پہنا سکتی ہے،مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ جو ٹیم منتخب کی جائے اسے اعتماد اور فری ہینڈ دیا جائے،حرف آخر یہ کہ گورنر پنجاب چودھری سرور کو ضائع کیوں کیا جا رہا ہے؟وہ ایک زیرک اور محنتی سیاستدان ہیں۔