۔۔" کہتے ہیں بڑی کامیابیاں بڑے خوابوں کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ میرا ایک بڑا خواب یہ تھا کہ پنجاب یونیورسٹی جلد از جلد درجہ بندی کے اعتبار سے کم از کم دنیا کی 500 بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہو جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور ہماری کوششوں سے اس سلسلے میں قابل قدر پیش رفت ہوئی ہے۔ 2018 میں پنجاب یونیورسٹی کیو۔ایس میں 232 ویں نمبر پر تھی اور آج ایشیاء کی ہزاروں یونیورسٹیوںمیں پنجاب یونیورسٹی 145 ویں نمبر پر ہے۔ ایشئین یونیورسٹیوں کی سابقہ رینکنگ میں پنجاب یونیورسٹی ٹاپ 55 فیصد میں شمار ہوتی ہے۔ اس طرح ہم پہلی بار پانچ سبجیکٹ ایریاز میں بین الاقوامی سبجیکٹ رینکنگ میں شامل ہوئے ہیں۔ بہت سی کامیابیاں سمیٹنے کے باوجود ہم مسلسل آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہیں اور ہمارا سفر ستاروں سے آگے کے جہانوں کی دریافت تک پھیلا ہوا ہے۔"
یہ جملے جامعہ پنجاب کے 130 ویں کانووکیشن کے موقع پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹرنیاز احمد اختر نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمائے۔حقیقت یہ ہے کہ دور حاضر میں عالمی درجہ بندی کی دوڑ میں شامل ہونا اور نمایاں جگہ حاصل کرنے کی تگ و دو کرنا جامعات کی مجبوری بن چکا ہے۔ اس طریقے سے جامعات عالمی سطح پر اپنی پہچان بناتی ہیں ، جس کا فائدہ ان جامعات کے طالب علموں، اساتذہ اور محقیقین کو پہنچتا ہے۔وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر نیاز اختر بھی اس معاملے میں کافی حساس ہیں۔ جامعہ پنجاب کو مختلف عالمی درجہ بندیوں کا حصہ بنانے کے لئے انہوں نے خصوصی کمیٹی کو یہ ٹاسک سونپ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہ کی عالمی درجہ بندی میں ہونے والی بہتری کا ذکر ان کی کم و بیش ہر تقریر اور انٹرویو میں ملتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے کانووکیشن میں بھی انہوں نے انٹرنیشنل رینکنگ میں یونیورسٹی کی پوزیشن کا خصوصی طور پر ذکر کیا۔ اس کے علاوہ اپنے عہد میں ہونے والے دیگر اچھے اقدامات کا تذکرہ بھی کیا۔ بتایا کہ کس طرح تعلیمی اور تحقیقی ماحول میں بہتری کو انہوں نے ایک مشن کا درجہ دیا ہوا ہے۔ انہوں نے جامعہ کی پالیسی میں اختیار اور احتساب کو لازم و ملزوم بنانے کی اہمیت بیان کی۔ بتایا کہ پرفارمنس میں اضافے کے لئے اساتذہ اور ملازمین کی حوصلہ افزائی کس قدر ضروری ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جامعہ پنجاب میں کم و بیش گیارہ سال سے سینٹ کا اجلاس نہیں ہوا تھا۔ عہدہ سنبھالتے ہی انہوں نے اس قانونی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اقدامات کئے اور اس تعطل کو دور کیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ او ر ملازمین برسوں سے ترقی پانے کے جائز حق سے محروم تھے۔انہوں نے تقرریوں اور ترقیوں کا یہ سلسلہ بحال کیا۔ خطا ب میں انہوں نے فرمایا کہ پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ پروفیسروں کی تعداد 150 تک پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے یہ ذکر بھی کیا کہ تحقیقی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے رواں برس میں پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 380 ملین کی خطیر رقم وقف کی گئی ہے۔یہ بھی بتانے لگے کہ نیچر پبلشنگ گروپ نے نیچرل سائنسز کے میدان میں تحقیق کے حوالے سے پنجاب یونیورسٹی کو پاکستان کی بہترین یونیورسٹی قرار دے دیا ہے۔ ـ" ۔۔۔۔
جہاں تک کانووکیشن کا تعلق ہے تو یہ ایک بڑی روایت ہے۔ نہ صرف جامعہ پنجاب کی بلکہ ہر یونیورسٹی کے لئے سالانہ کانووکیشن ایک بڑی اہم تقریب ہوا کرتی ہے۔ جامعہ کے وائس چانسلر کیساتھ ساتھ اساتذہ اور انتظامیہ بھی اس کے منتظر رہتے ہیں۔ خاص طور پر طالب علموں کے لئے اس کی اہمیت بے حد زیادہ ہوتی ہے۔ اس تقریب میں انہیں سالوں کی محنت کا صلہ عطا ہوتا ہے۔ جامعہ پنجاب کا یہ کانووکیشن حسب معمول فیصل ایڈیٹوریم میں منعقد ہوا۔ ہال اساتذہ، طلباء، میڈیا کے افراد اور دیگر مہمانان سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اسٹیج پر وائس چانسلر، پرو وائس چانسلر، رجسٹرار اور دیگر عہدیداران موجود تھے۔ جامعہ کی تمام فیکلٹیز کے ڈین صاحبان بھی اسٹیج پر لگی کرسیوں پر براجمان تھے۔ قرآن پاک کی تلاوت اور نعت رسول مقبول ؐسے تقریب کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد ہر فیکلٹی کا ڈین اپنی باری پر روسٹرم پر آکر مائیک سنبھالتا اور فیکلٹی کے تمام شعبہ جات کے طالب علموں کو متعلقہ ڈگریاں عطا کرنے کے لئے پیش کرتا۔ اس درخواست کے بعد وائس چانسلر (جنہیں اس دن چانسلر کے اختیارات بھی سونپے گئے تھے) طالب علموں کو ڈگری عطا کرنے کا اعلان کرتے اور یوں ڈگری دینے کا عمل مکمل ہوجاتا۔
پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری چونکہ خصوصی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ یہ ڈگری ہر طالب علم کو اسٹیج پر بلا کر عطا کی جاتی ہے۔ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں کے اعلان کے لئے کنٹرولر امتحانات، نے مائیک سنبھالا۔ وہ ہر شعبے کے ہر ہر طالب علم کا نام پکارتے ۔ طالب علم آگے بڑھ کر وائس چانسلر صاحب سے اپنی ڈگری وصول کرتا۔ اس کانووکیشن میں 289 طالب علموں کو ڈاکٹریٹ کی ڈگریاںعطا کی گئیں۔ یہ تعداد جامعہ کی تاریخ کا ایک ریکارڈ ہے۔ پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریوں کے بعد پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علموں کو میڈل دینے کا مرحلہ آیا۔ یہ میڈل بھی طالب علموں کی حوصلہ افزائی کے لئے انہیں اسٹیج پر بلا کر عطا ہوتے ہیں۔ اس موقع پر رجسٹرار ڈاکٹر خالد خان نے مائیک سنبھالا۔ وہ باری باری میڈل لینے والوں کے نام پکارتے ۔ 43 طالب علم ایسے تھے جنہوں نے دو دو گولڈ میڈل حاصل کئے۔ دس طالب علموں کو تین تین گولڈ میڈل ملے۔ جبکہ تین طالب علموں کو چار چار گولڈ میڈل ملے۔ میڈلز کی تعداد کے حساب سے رجسٹرار صاحب کی آواز کی گھن گرج میں بھی اضافہ ہو جاتا اور اس کے نتیجے میں ہال میں تالیوں کی گونج بھی اتنی ہی زور دار ہوتی۔ ایم۔بی۔اے کی طالبہ زینب نے پانچ گولڈ میڈل حاصل کئے۔
کانووکیشن میں دو بھائیوں نے اور میاں بیوی نے بھی ایک ساتھ پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں وصول کیں۔ اسکے علاوہ دو بہنوں نے گولڈ میڈلزحاصل کئے۔ کچھ طالب علموں کے میڈلز اور پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں ان کے والدیا والدہ نے وصول کئے۔ ان مواقع پرہال زوردار تالیوں سے گونج اٹھتا۔
جامعہ پنجاب کے کچھ اساتذہ اور انتظامیہ کے افراد نے بھی پی۔ایچ ۔ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ وائس چانسلر اور رجسٹرار خاص مسکراہٹ کے ساتھ ان امیدواروں کا استقبال کرتے اور انہیں شاباشی یا تھپکی دیتے۔ یوں تو لڑکیا ں اور خواتین ہر ہر شعبے میںپیش پیش دکھائی دیتی ہیں۔ کانووکیشن میں بھی گولڈ میڈل لینے اور پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں حاصل کرنے والوں میں لڑکیوں کی تعداد اچھی خاصی تھی۔ یہ دیکھ کر بھی بہت اچھا لگا کہ با پردہ اور با حجاب لڑکیاں غیر روائتی مضامین میں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں لینے اور میڈلز حاصل کرنے میں نمایاں تھیں۔
تقریب کی اچھی بات یہ تھی کہ سب کے چہروں پر خوشی تھی۔ طالب علم بھی خوش تھے اور اساتذہ کرام بھی۔ وائس چانسلر اور انتظامیہ کے افراد کے چہروں پر بھی اطمینان تھا۔ کئی سو طالب علموں کو ڈگریاں تھمانا۔ اور کئی سو طالب علموں کے گلے میں میڈلز پہنانا بہرحال ایک دقت طلب فریضہ تھا۔ وائس چانسلر صاحب اور ان کے ساتھ کھڑے اعلیٰ عہدیداران نے یہ فریضہ مگر بخوشی اور بخوبی انجام دیا۔ کرونا کی وبا نے کم و بیش تمام شعبوں کو متاثر کر رکھا تھا۔ تعلیمی سرگرمیاں اور دیگر تقریبات بھی بری طرح متاثر ہو ئی تھیں۔ کچھ عرصہ سے تعلیمی سرگرمیاں بھی بحال ہوگئی ہیں۔ کانووکیشن کی یہ تقریب بھی تازہ ہوا کا ایک جھونکا محسوس ہوئی۔ دعا ہے کہ اللہ پاک جامعہ پنجاب کی رونقیں برقرار رکھے اور یہ جامعہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے۔ آمین۔