ملک کی معاشی صورتحال پر سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے اس تبصرے سے اگر اتفاق نہ بھی کیا جائے کہ ملک دیوالیہ ہونے جارہا ہے، پھر بھی یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ہماری معیشت خطرے کے کنارے پر کھڑی ہے۔ 115 ارب ڈالر کے غیرملکی قرضے، تجارتی خسارہ جو رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران 20 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا اور روپے کی شرح مبادلہ میں تاریخی گراوٹ جو گزشتہ قریب تین برس کے دوران 30.5 فیصد کم ہوئی، ملکی معاشی ڈھانچے کے بنیادی مسائل ہیں۔ قرضوں پر واجب الادا سود ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لیے جارہے ہیں جبکہ بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ روپے کو سنبھلنے نہیں دے رہا۔ ملکی معیشت کا وجود صنعت و پیداوار کی سرگرمیوں پر منحصر ہوتا ہے مگر خطے میں اہم ترین جغرافیائی حیثیت اور بے پناہ معدنی، بحری، جغرافیائی وسائل کے باوجود پاکستان کی برآمدات ٹیکسٹائل کے شعبے سے آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔ کسی زرعی ملک کے لیے خوراک کی مسلسل پھیلتی عالمی منڈی میں جگہ بنانے کا آپشن بھی کھلا ہے مگر ہمارا زرعی ملک ہونے کا دعویٰ بھی محض کہنے کی حد تک ہے کیونکہ گندم سے لے کر دالیں اور تازہ سبزیاں تک ہمیں درآمد کرنا پڑتی ہیں۔وجہ جاننے کے لئے کسی را کٹ سائنس کی ضرو رت نہیں۔ تو اس کی بڑی وجہ زرعی اراضی کو رہا ئشی اور صنعتی مقصد کے لئے استعما ل میں لا نا ہے۔ پھر دیہا تی اور شہر ی ز ند گی کا موا زنہ کر تے ہو ئے یہ با ور کرانا کہ شہری ز ند گی دیہا تی زند گی سے بد رجہا بہتر ہے،بڑ ے پیما نے پر دیہا تی آ با دی کا شہر وں کی جا نب کو چ کر نے کا سبب بنتا ہے۔ ہو نا تو یہ چاہئے تھا کہ اپنی زرا عت کی اہمیت کو سمجھتے ہو ئے نہ صرف ترقی یا فتہ ممالک کی نت نئی زرعی ایجادات کا فائدہ اٹھا یا جا تا، بلکہ زرعی تعلیمی ادا روں کی ریسرچ ورک میں ہمت افزائی کی جا تی۔ مگر یہاں تو الٹی گنگا بہا ئی گئی۔زرعی ادا روں کی ہمت افزا ئی کے بجائے انہیں جسم کا ناکارہ عضو سمجھ کر برے طریقے سے نظرانداز کیا گیا۔ اس کو بھی چھوڑیئے ، مگر یہ تو ملاحظہ فرمائیں کہ اب بھی ہماری حکو مت کسا نو ں کے لئے کس قسم کے ایسے مسا ئل پیدا کر رہی ہے جس کا کسا نوں نے ما ضی میں تصور بھی نہیں کیا تھا۔اس کا احسا س کر نے کے لئے ذرا زر عی ڈ پو ئوں کا چکر لگا یئے۔آ پ کھا د اور بیج کے لئے فر لا نگ فر لا نگ لمبی قطا ریں دیکھیں گے۔ کہنا یہ مقصو د ہے کہ ہمارے تجارتی خسارے میں ایک بڑا حصہ اس کا بھی ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ایک ارب ڈالر سے زائد اخراجات صرف گندم اور چینی کی درآمد کے تھے۔ کھانے کے تیل کی درآمد کا بل اڑھائی ارب ڈالر سے بھی زائد تھا جبکہ 70
کروڑ ڈالر سے زائد رقم دالوں کی درآمد پر خرچ کی گئی۔ وسیع زرعی رقبہ، معتدل موسم اور زرعی پیداواری روایت کے باوجود خوراک میں خود کفالت کے اقدامات حکومتی دلچسپی دکھائی نہیں دیتے۔ ٹیکسٹائل ملک کا بنیادی برآمدی شعبہ ہے مگر کپاس کے پیداواری بحران کی وجہ سے گزشتہ برس سوا دو ارب ڈالر کے قریب کپاس درآمد کی گئی۔ برآمدات کے شعبے میں یہ تیزی نظر نہیں آتی۔ گزشتہ مالی سال کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران برآمدات کا اضافہ صرف 14 فیصد تھا۔ اگرچہ رواں برس کے دوران برآمدات میں اضافے کی شرح قدرے بہتر ہے مگر درآمدات میں ہونے والے غیرمعمولی اضافے نے برآمدات کے اس اضافے کو بھی گہنادیا ہے۔ اس معاشی صورت حال کے اثرات بلارکاوٹ نیچے منتقل ہورہے ہیں، افراطِ زر کی صورت میں اور معاشی بے یقینی کی صورت میں۔ ساڑھے گیارہ فیصد مہنگائی کے ساتھ وطن عزیز اس خطے میں سب سے بلند مقام پر فائز ہے۔ بھارت میں یہ شرح صرف 4.95 فیصد ہے، بنگلہ دیش میں 5.7 فیصد اور سری لنکا میں 9 فیصد۔ اس کے باوجود ہمارے وزیر باتدبیر یہ کہتے ہیں کہ پاکستان ایشیا کے تمام ممالک سے سستا ملک، یہاں بس چائے مہنگی، باقی ہر چیز سستی ہے۔ ورلڈ بینک سمیت ممالک کی معیشت کا ریکارڈ رکھنے والے معتبر ادارے اور پورٹلز وفاقی وزیر کے اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتے۔ جس طرح آنکھیں بند کرلینے سے خطرہ دور نہیں ہوجاتا اسی طرح معاشی بحران کا انکار کردینے سے مسائل کم نہیں ہوجاتے۔ عام آدمی جب خریداری کے لیے نکلتا ہے تو اسے آٹے دال کا بھائو معلوم ہوجاتا ہے۔ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی حالیہ قسط کی سخت ترین شرائط کے اثرات مہنگائی میں بڑا اضافہ کرچکے ہیں۔ اس قسط کی منظوری تو حال ہی میں ہوئی ہے مگر اس منظوری کے لیے ہوم ورک رواں سال کے شروع ہی میں کردیا گیا تھا اور بجلی کی قیمتوں میں پے درپے اضافے، ضروری اشیا پر دی جانے والی سبسڈیز میں مسلسل کمی اور اس سال کے بجٹ میں مزید ٹیکسوں کے نفاذ سے یہ واضح ہے۔ مگر جو کچھ ہوچکا اسے صرف ٹریلر سمجھنا چاہیے کیونکہ اصل فلم تو منی بجٹ کی صورت میں ابھی آنا باقی ہے۔ تاہم یہ بھی اب ایک کھلا راز ہی ہے کیونکہ متعلقہ فورمز سے منی بجٹ کی تجاویز کی منظوری اگرچہ ابھی باقی ہے؛ تاہم اس حوالے سے جو کچھ حکومت کے متعلقہ لوگ واضح کرتے ہیں اسے حتمی سمجھنا چاہیے اور اس کے اثرات بھی واضح ہیں کہ تین سو ارب روپے سے زائد کا بوجھ تو صرف جی ایس ٹی کی چھوٹ ختم کرنے یا شرح بڑھانے کی صورت میں پڑے گا۔ اس صورت حال سے نکلنے یا یوں کہہ لیں خطے کے دیگر ممالک سے برابری قائم کرنے کے لیے پاکستان کو اپنی ترجیحات تبدیل کرنا ہوں گی۔ اس کے لیے جو اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں ان میں برآمدات بڑھانا، چھوٹے اور درمیانے کاروبار، صنعت اور برآمد کنندگان کی حوصلہ افزائی اور تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات بنیادی طور پر اہم ہیں۔ موجودہ حکومت جب اقتدار میں آئی تو اس کا عزم یہ تھا کہ درآمدات کم کی جائیں۔ اس کے لیے کوششوں کے دعوے بھی کیے گئے، یہاں تک کہا گیا کہ ڈالر کی قدر مارکیٹ کے مطابق متعین کرنے سے یعنی روپے کی قدر میں گراوٹ سے جب درآمدی اشیا کی قیمتیں بڑھ جائیں گی تو درآمدات کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ مگر اعداد و شمار درآمدات میں جو اضافہ دکھارہے ہیں، واضح کرتے ہیں کہ حکومت کی یہ سوچ منطقی طور پر درست ثابت نہیں ہوئی کیونکہ درآمدات میں صرف اشیائے تعیش ہی شامل نہیں ایک بڑا حصہ ان ضروری اشیا کا بھی ہے جو روزمرہ کی ضرورت ہیں مگر ملکی پیداوار اس ضرورت کو پورا نہیں کرتی۔ اگر خوردنی تیل، گندم، چینی اور دالوں وغیرہ کی پیداوار میں خود کفالت حاصل کرلی جائے تو درآمدات میں سالانہ دسیوں ارب ڈالر بچائے جاسکتے ہیں۔