کپل شرما شو بھارت کا ایک مقبول ترین ٹی وی پروگرام ہے جو دنیا بھر میں دلچسپی سے دیکھا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں تاہم مجموعی اعتبار سے یہ ایک اچھا ٹی وی شو قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی شو میں سچن ٹنڈولکر مہمان کے طور پر آئے اور انہوں نے پاکستان کے دورے کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ انضمام الحق اپنے بیٹے کے ساتھ ان سے ملنے کے لیے ڈریسنگ روم میں آئے اور کہنے لگے کہ یہ میرا بیٹا ہے لیکن یہ فین آپ کا ہے۔ اسی طرح سنیل گواسکر جاوید میاں داد کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ شعیب اختر اور ہربھجن سنگھ ایک دوسرے کے ساتھ ایسے ملتے ہیں جیسے بچپن کے دوست ہوں۔ پاکستان میں بھارتی کرکٹ ٹیم کی ایک بڑی فین فالوونگ موجود ہے اور کئی میچوں میں پاکستان کے فین بھارتی کرکٹ ٹیم کی جرسی پہن کر گئے۔ اس ساری تمہید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ سرحد کے اس طرف حالات بھارت سے قدرے بہتر ہیں اور دوسرا پاکستان اور بھارت کے کرکٹ کے کھلاڑی ایک دوسرے کے دوست ہیں اور کرکٹ کو انجوائے کرتے ہیں لیکن بھارت کا گودی میڈیا اور بھارتی جنتا پارٹی کے کارکن کٹر پن میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ گزشتہ ٹی ٹونٹی میچ کے دوران پاکستان نے بھارت کو شکست سے دوچار کر دیا اس پر بھارت میں تعلیم حاصل کرنے والے کشمیری طلبا نے پاکستان کے جیتنے پر واٹس اپ پر اپنی خوشی کا پیغام ارسال کیا اور اس کا خمیازہ انہیں گرفتاری کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
اطلاعات کے مطابق کشمیر اور بھارت کی مختلف ریاستوں میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ کے خلاف چار مقدمے درج کیے گئے۔ ان مقدمات میں سے اتر پردیش میں درج کیے جانے والے ایک مقدمے میں ’ملک سے بغاوت‘ جبکہ باقی تین میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔اتر پردیش اور پنجاب میں کشمیری طلبہ پر سخت گیر ہندو نظریات رکھنے والے افراد کی جانب سے جان لیوا حملے کیے گئے جبکہ کشمیر کے شعبہ صحت میں کام کرنے والی ایک خاتون ٹیکنیشن کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔اتر پردیش کے شہر آگرہ میں مقامی پولیس نے راجا بلونت سنگھ انجینئرنگ ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ میں زیر تعلیم تین کشمیری طلبہ کے خلاف ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں کی شکایت پر ’ملک سے بغاوت‘ کا مقدمہ درج کیا۔بی جے پی کی یوتھ ونگ کے لیڈران نے اپنی شکایت میں کہا کہ کالج میں زیر تعلیم تین کشمیری طلبہ ارشد یوسف، عنایت شیخ اور شوکت احمد گنائی نے کرکٹ میچ میں پاکستان کی جیت کے بعد ’بھارت مخالف اور پاکستان حامی‘ نعرے لگائے۔انسٹی ٹیوٹ کی انتظامیہ نے ان الزامات کی نفی کی ہے تاہم پولیس نے ’جھوٹے الزامات‘ پر مبنی بی جے پی کی شکایت کو بنیاد بنا کر ان طلبہ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرلیا۔کشمیری طلبہ کی تنظیم ’جموں و کشمیر سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن‘ کے صدر ناصر کہویہامی کے مطابق انہوں نے آر بی ایس انسٹی ٹیوٹ آگرہ کی انتظامیہ اور طلبہ سے بات کی تو انہیں بتایا گیا کہ گرفتار کیے جانے والے طلبہ، جن پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا ہے، نے پاکستان کے حق میں کوئی نعرے بازی نہیں کی۔ ان طلبہ نے صرف وٹس ایپ پر سٹیٹس اپ لوڈ کیا تھا جس میں پاکستان کی جیت پر خوشی کا اظہار کیا گیا تھا۔
ناصر کہویہامی نے بتایا کہ پولیس نے ان طلبہ کو جب آگرہ کی عدالت میں پیش کیا تو وہاں بی جے پی سمیت مختلف کٹر ہندو تنظیموں کے کارکنوں اور مقامی وکلا نے ان پر جان لیوا حملہ کر دیا۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار بھی کیا کہ حملہ کرنے والوں میں وکلا بھی شامل تھے۔کشمیری طلبہ پر حملہ کرنے والے افراد ’بھارت ماتا کی جے، وندے ماترم، پاکستان مردہ باد اور دیش کے غداروں کو گولی مارو۔۔۔‘ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔‘
کشمیری طلبہ کی تنظیم کے صدر نے بتایا کہ ہم نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو ایک خط لکھا ہے جس میں ہم نے ان سے گزارش کی ہے کہ وہ اس معاملے کو انسانی بنیادوں پر حل کریں۔’ہم چاہتے ہیں کہ طلبہ کے خلاف درج کیا جانے والا مقدمہ واپس لیا جائے کیوں کہ یہ سخت دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔ اس مقدمے کی وجہ سے ان طلبہ کا کیریئر داؤ پر لگ چکا ہے۔‘انہوں نے مزید کہا: ’ہمارے خط کا اب تک کوئی ردعمل برآمد نہیں ہوا ہے۔ ان طلبہ کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔ ہم نے ان طلبہ کے لیے ایک وکیل کا انتظام بھی کیا ہے جنہوں نے مفت میں اپنی خدمات دینے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔‘
کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کشمیری طلبہ پر آگرہ کی عدالت میں وکلا کے حملے کو ناقابل قبول اور مقامی پولیس کے کردار کو مشکوک قرار دیا۔ ’کالج انتظامیہ نے ان کو کلین چٹ دے دی اور تصدیق کہ انہوں نے کوئی نعرہ بازی نہیں کی لیکن کالج انتظامیہ کی کلین چٹ کو خاطر میں لانے کے بجائے اتر پردیش کی پولیس ان غریب اور لاچار بچوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔وکلا کا ان طلبہ کے ساتھ سلوک ناقابل قبول ہے اور پولیس کا کردار بھی مشکوک ہے۔ اتر پردیش میں انتخابات قریب ہیں۔ وہاں جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ کشمیری طلبہ کے ساتھ دوستی کرنے کے بجائے انہیں سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔‘
سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ان طلبہ کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا: ’کشمیری طلبہ کے خلاف جموں و کشمیر کے اندر اور باہر جاری کریک ڈاؤن قابل مذمت ہے۔ دو سال کے جبر کے بعد جموں وکشمیر کی صورتحال بھارتی حکومت کے لیے چشم کشا ہونی چاہیے تھی اور انہیں اصلاحی اقدام کرنے چاہیے تھے۔ بی جے پی کی فرضی حب الوطنی سے بھارت کے تصور کی تحقیر ہو جاتی ہے۔ ان طلبہ کو فوری طور رہا کیا جائے۔‘
سری نگر میں ان گرفتار طالب علموں کے اہل خانہ نے احتجاج کیا اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ گرفتار طالب علم کی ماں نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی اور کہا کہ ہم نے زمین جائیداد بیچ کر اپنے بیٹے کو پڑھنے کے لیے بھیجا تھا۔ اسی طرح پنجاب ضلع سنگرور میں واقع بھائی گرداس انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ایک ہوسٹل میں مقیم کشمیری طلبہ پر مبینہ طور پر ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے اس وقت حملہ کیا جب اولالذکر پاکستان کی جیت کا جشن منا رہے تھے۔ہوسٹل میں مقیم سبھی طلبہ اپنے اپنے کمروں میں میچ دیکھ رہے تھے۔ پاکستان کی جیت پر جب کمرے میں تھوڑا سا جشن منایا گیا تو بہار سے تعلق رکھنے والے طلبہ کمروں میں داخل ہوگئے اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔انسٹی ٹیوٹ کی انتظامیہ اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے بروقت مداخلت کر کے صورتحال کو مزید خراب ہونے نہیں دیا۔ اسی طرح کشمیر کے دو میڈیکل کالجز کے ہاسٹلز میں پاکستان کی جیت پر ہونے والے خوشی کی ویڈیوز وائرل ہوئیں تو پولیس حرکت میں آ گئی۔کشمیر پولیس نے ضلع سانبہ میں پاکستان کی جیت کا جشن منانے کے الزام میں کم از کم سات افراد کو گرفتار کیا۔ معاملہ صرف اس حد تک نہیں ہے بلکہ سری نگر سے یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کو بھی گرفتار کیا گیا۔
بھارتی ظلم و جبر کی داستانیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود بھارت نے کشمیری مسلمانوں کو زخم ہی لگائے ہیں اور کشمیری کو ہمیشہ یہ احساس دلایا ہے کہ وہ ایک مقبوضہ ریاست ہیں۔ ریاستی جبر کے تحت قوموں کو محکوم تو بنایا جا سکتا ہے مگر ان کے جذبات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف اس طرف سے کبھی ان کے لیے کلمہ خیر نہیں کہا گیا۔ کسی نے ان کشمیری طلبہ کی گرفتاری پر احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی ان کی رہائی کا کوئی بندوبست کیا۔ بیرون ملک مقیم کشمیری رہنما بھی چپ سادھے تماشا دیکھ رہے ہیں اور کسی جگہ سے کوئی احتجاجی آواز نہیں اٹھی کہ ان طالب علموں کو رہا کیا جائے۔ بھارت میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا بھی ان سے کوئی لینا دینا نہیں۔ آئیے ان کی آواز بنیں اور سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے کے لیے اپنا حصہ ڈالیں۔