عالمی سیاست بالخصوص امریکی سیاست کو سمجھنا بہت مشکل کام ہے یہاں ایسے ایسے یوٹرن آتے ہیں کہ یقین، عقل، تجزیے اور تبصرے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ سعودی عرب اور اسرائیل جیسے ازلی مخالف ایک وقت آئے گا کہ ایران کے خوف سے اکٹھے ہو جائیں گے یہ آپ دیکھ چکے ہیں اس سے بھی بڑی خبر یہ ہے کہ امریکی بائیڈن انتظامیہ نے ایران کے ساتھ 2015ء میں اوباما دور میں ہونے والی نیو کلیئر ڈیل جو سابق صدر ٹرمپ نے 2019 ء میں بر سر اقتدار آتے ہی منسوخ کر دی تھی اسے بحال کرنے کا تقریباً فیصلہ کر لیا ہے جس پر آسٹریا کے شہر ویانا میں ایرانی اور امریکی نمائندوں کے درمیان مذاکرات آخری مراحل میں ہیں یہ ڈیل یور پی یونین کی ثالثی سے ممکن ہوئی ہے۔
اس سے ایران امریکہ اور یورپی یونین سب کو اپنے اپنے مقاصد اور فوائد ہیں اور ڈیل نہ ہونا سب کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ یورپی یونین اور امریکہ کو ڈیل کی اس لیے بھی جلدی ہے تا کہ عالمی منڈی میں روس یوکرین جنگ کے نتیجے میں آسمان سے باتیں کرتی تیل کی قیمتوں کو نیچے لایا جا سکے ان قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بائیڈن کو 2024 ء کے امریکی انتخابات میں اپنی دوبارہ منتخب ہونے کی خواہش چکنا چور ہوتی نظر آتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ گزشتہ ماہ امر یکی صدر بائیڈن نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور اماراتی سربراہ مملکت محمد بن زید النہیان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ پٹرول کی یومیہ پیداوار بڑھا کر عالمی قیمت کو نیچے لا سکتے ہیں اس دوسرے میں امریکا نے جمال خشوگی کے قتل کے معاملے پر بہت بڑا یوٹرن لیا تھا لیکن اس کے باوجود خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔
اس پس منظر میں جب امریکا کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا تو اس نے یورپی یونین کے ذریعے ایران سے براہ راست نیو کلیئر ڈیل کی بحالی کا فیصلہ کیا تاہم ایران سے اقتصادی پابندیاں اٹھائی جا سکیں، ایسا ہونے سے جب عالی منڈی میں ایرانی تیل کی سپلائی شروع ہو جائے گی تو طلب ورسد کے اصول کے تحت قیمتیں خود بخود کم ہو جائیں گی جس سے امریکا میں مہنگائی میں کمی آئے گی جو 2024ء کے انتخابات میں بائیڈن کی دوبارہ منتخب ہونے کی راہ ہموار کر سکے گی۔
ایرانی خفیہ ادارے القدس بریگیڈ کے سربرا ہ قاسم سلیمانی کو 2019ء میں امریکی CIA نے ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا تھا جس کے بعد لگتا تھا کہ امریکا اور ایران میں جنگ نہ بھی ہوئی تو ان کے تعلقات میں Hostiliy کبھی ختم نہیں ہو گی مگر ایران نے بھی محسوس کیا کہ وہ پوری دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتا اقتصادی پابندیوں نے اس کی معیشت تباہ کردی ہے جبکہ مڈل ایسٹ میں اس کے مخالفین پہلے سے زیادہ مضبوط ہور ہے ہیں ان حالات میں ایران نے خود کو عالمی تنہائی سے نکالنے کیلئے امریکا کی طرف اپنا رویہ نر م کر دیا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکا ایران سے صلح کرنا چاہتا ہے مگر ایران سے نے کہا ہے کہ وہ اپنی شرائط پر صلح کرے گا یہ تین شرائط ایسی ہیں کہ امریکہ تذبذب کا شکار ہے امریکی دفتر خارجہ نے ان مطالبات کو Extaneous یا غیر ضروری قرار دیا ہے۔ ایران نے پہلی شرط یہ رکھی ہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب کے ممبران کو امریکی اور عالمی دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کیا جائے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ انٹرنیشنل ایٹامک انرجی ایجنسی IAEA نے ایران کے خلاف یورینیم افزودگی کی جو تحقیقات شروع کر رکھی ہیں اسے بند کیا جائے اور تیسری اور سب سے اہم شرط یہ ہے کہ امریکی صدر بائیڈن اس بات کی ضمانت دیں کہ آنے والی کوئی امریکی حکومت اس معاہدے کو منسوخ نہیں کر سکے گی۔ امریکا کے لیے تحریر تینوں شرائط ناقابل قبول ہیں۔ جس کی وجہ سے مذاکرات میں ڈیڈ لاک نظر آتا ہے۔
البتہ ایرانی وزیر خادجہ حسین امیر عبد انہیان نے کہا ہے کہ اگر ان شرائط کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو ہمارے پاس پلان B موجود ہے جس کا تفصیلات ابھی تک منظر عام پر نہیں لائی جارہی۔ ایک بات طے ہے کہ اس سارے معاملے میں ایرانی سفارت کاری کو داد دینی چاہئے جو مکمل طور پر امریکہ اور یورپی یونین پر چھائے ہوئے ہیں۔
بظاہر تو یہ ایک اقتصادی پابندی کے خاتمے سے امریکا کیلئے آسانیوں کا معاملہ سے مگر بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ 2015ء کا یہ معاہدہ جب 2019 ء میں یکطرفہ طور پر منسوخ کیا گیا تو اس کے رد عمل کے طور پرایران نے اپنے ایٹمی پروگرام پر دوبارہ عمل درآمد شروع کر دیا ہوا ہے اور ذرائع کے مطابق ایران نے غیر اعلانیہ طور پر نیو کلیئر صلاحیت حاصل کر لی ہے اور اس کے نیو کلیئر اثاثے کسی بھی ایٹمی ملک کے اثاثوں کے برابر ہو چکے ہیں اور اگر یہ بات درست ہے تو پھر پورا مڈل ایسٹ خصوصاً سعودی عرب اور اسرائیل اں وقت ایران کے نشانے پر ہیں جو کہ تشویشناک بات ہے ۔
سعودی عرب اور اسرائیل ایک طرف تو امریکا سے اس بات پر ناراض ہیں کہ وہ ایران کے مقابلے میں انہیں جنگی صلاحیت اور اسلحہ اور گولہ بارود مہیا نہیں کر رہا۔ اب انہیں اس بات پر مزید تشویش ہے کہ اگر ایران اور امریکہ کے درمیان صلح ہوگئی تو ان کا کیا ہو گا اور اگر ایران اقتصادی مشکلات پر قابو پالیتا ہے تو اْسے روکنا اور مشکل ہوگا مگر اس وقت امریکا سعودی عرب اور اسرائیل کے بجائے اپنے مسائل میں الجھا ہوا ہے دوسرا یہ کہ چائنا کے ساتھ ہر محاذ پر آمناسامنا ہونے کی وجہ سے امریکی دفتر خارجہ اور پینٹا گون دونوں کی توجہ مڈل ایسٹ سے کم ہوکر چائنا پر مرکوز ہے۔
امریکا کے اندر یہ سمجھا جارہا ہے کہ ایران ہرگزرتے دن کے ساتھ ایٹمی پروگرام میں اپنی استعداد بڑھاتا جارہا ہے اور معاہدے کی بحالی کی صورت میں ایران کا ایٹمی پروگرام روک دیا جائے گا۔ امریکی دفاعی ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے پہلے پہلے اس کا فیصلہ ہو جانا چاہیے۔ جتنی تاخیر ہو گی ایران ایٹمی طور پر اتنا آگے بڑھ چکا ہو گا لہٰذا 2024 کے امریکی انتخابات سے پہلے پہلے اس کا فیصلہ ہو جانا چاہیے۔
ایران اور امریکہ کے درمیان امن اور صلح کی بات ایک ناقابل یقین حقیقت سے جو اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ اگر یہ دو ممالک صلح کر سکتے ہیں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان مشتر کہ دفاع کا معائدہ ہو سکتا ہے تو کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر پر پیش رفت کیوں نہیں ہوسکتی۔