تحریک انصاف کے دور میں موجودہ حکومتی اتحادی جماعتوں کا کوئی ایک رہنما تو گرفتار نہیں ہوا تھا درجہ اول کی قیادت سے لے کر درجہ دوم تک کی قیادت پابند سلاسل رہی ۔آصف علی زرداری ، میاں نواز شریف ، محترمہ مریم نواز ، میاں شہباز شریف ، فریال تالپور ، شرجیل میمن ، حمزہ شہباز ، سعد رفیق ، خاقان عباسی ، حنیف عباسی کس کس کا نام لیں ۔ان میں سے اگر کوئی بیمار ہوتا تو تحریک انصاف کی جانب سے کیا کچھ نہیں کہا جاتا تھا اور ان کے سوشل میڈیا پر تو ایسی ایسی پھبتیاں کسی جاتی تھی کہ الامان و الحفیظ ۔ کبھی کبھی تو ہمیں بھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ واقعی یہ سب بکری ہیں اور اصل ببر شیر توتحریک انصاف والے ہیں لیکن سیانے سچ ہی کہتے ہیں کہ جب تک کسی کو آزما نہ لو اس وقت تک کسی کے متعلق کبھی اپنی رائے کا اظہار نہ کرو ۔ ہم اظہار نہیں کرتے تھے لیکن جس طرح تحریک انصاف والے اپنے مخالفین کا تمسخر اڑاتے تھے تو ہم تو انھیں طرم خان ٹائپ کوئی چیز سمجھتے تھے کہ جیل تو ان کے لئے کوئی شے ہی نہیں بلکہ ان کا شمار تو ان سیاسی بہادروں میں ہوتا ہے کہ جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ جھومتے ہوئے پھانسی گھاٹ تک جاتے ہیں اور ایک نعرہ مستانہ لگا کر پھانسی کا پھندہ خود اپنے گلے میں ڈالتے ہیں لیکن یہاں تو بقول شاعر
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرئہ خون نہ نکلا
خدائے پاک ہر کسی کو بری گھڑی سے محفوظ و مامون رکھے۔ پنجابی کہاوت ہے کہ اگر اونٹ والوں سے دوستی رکھنی ہے تو پھر گھر کے دروازے اونچے رکھنا پڑتے ہیں لیکن یہ تو معاملہ ہی عجیب ہے کہ گرفتاریوں پر حوصلے تو کیا دکھانے ہیں یہاں تو ایک شہباز گل کی گرفتاری پر چیخیں ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہیں اور ابھی صرف ایک گرفتاری ہوئی ہے کہ تحریک انصاف کا گھگو بول گیا ہے بلکہ گھگو گھوڑے سب بول گئے ہیں ۔ مرحوم محمد علی کو تو بھائی لوگوں نے ایسے ہی شہنشاہ جذبات کا نام دے رکھا ہے ۔ شہباز گل کی گرفتاری کے بعد تو تحریک انصاف میں ایک نہیں کئی شہنشاہ جذبات کا کردار انتہائی احسن طریقہ سے نبھا رہے ہیں اور گڑ بڑ کا اقرار بھی ہر سطح پر کیا جا
رہا ہے لیکن تفتیش سے بھی روکا جا رہا ہے اور جس طرح ان کے ریمانڈ پر واویلا کیا جا رہا ہے اس سے تو صاف نظر آ رہا ہے کہ ’’کچھ تو گڑ بڑ ہے ‘‘ ۔
اندازہ کریں کہ شہباز گل کے دو روزہ ریمانڈ پر اس قدر شور اور تحریک انصاف کے دور میں نیب جب کسی کو گرفتار کرتی تھی تو نیب قانون کے مطابق وہ شخص 90روزہ ریمانڈ کے ساتھ نیب کے پاس چلا جاتا تھا ۔ بات صرف ریمانڈ تک محدد رہتی تو تب بھی کوئی بات نہیں تھی کہ یہ ہر کسی کا قانونی حق بنتا ہے کہ وہ جس حد تک ہو پولیس ریمانڈ سے بچتا ہے لیکن جس شدید اصرار اور انتہائی بھونڈے دلائل کے ساتھ ریمانڈ کی مخالفت کی جا رہی تھی اس سے لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری کی پوری دال ہی کالی ہے اور پھر عدالت کے حکم کے باوجود بھی جس طرح اڈیالہ جیل پر تماشا لگایا گیا آئین اور قانون کی عملداری پر یقین رکھنے والا کوئی جمہوریت پسند اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ عدالت نے دو روز کا ریمانڈ دیا ہے اور اسلام آباد پولیس انھیں لینے اڈیالہ جیل پہنچی لیکن ’’ ’ سب کے لئے یکساں قانون ہونا چاہئے‘‘ ‘‘ کا بھاشن دینے والوں نے عدالتی حکم کے تحت شہباز گل کو اسلام آباد پولیس کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا حتی کہ وفاقی حکومت کو رینجرز اور ایف سی کو بلانا پڑا تب کہیں جا کر’’ سب کے لئے یکساں قانون ہونا چاہئے‘‘ والوں نے شہباز گل کو اسلام آباد پولیس کے حوالے کیا اور خدا معاف فرمائے دوسروں کو بیماری کے طعنے دینے والوں کا اپنا یہ حال تھا کہ ایمبولنس میں آکسیجن ماسک لگا کر پڑے ہوئے تھے جبکہ پمز ہسپتال والوں نے ان کی صحت کو تسلی بخش قرار دیا ہے ۔ شہباز گل کی اسلام آباد پولیس کو حوالگی کے حوالے سے جو کچھ ہوا کیا یہ وفاق اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کو لڑانے کی سازش نہیں بلکہ کھلی کوشش نہیں تھی اور ہم اپنی تحریروں میں متعدد بار اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ عمران خان جس طرز کی سیاست کر رہے ہیں اس سے ملک میں سول وار کے خطرات پیدا ہو چلے ہیں اور حالات و واقعات ہماری بات کی سچائی پر مہر تصدیق ثبت کرتے نظر آ رہے ہیں ۔
حالیہ دنوں میں یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے کہ جس سے ملک میں انارکی کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ 25 مئی کے واقعات کو بنیاد بنا کر اب تک 26ایس ایچ اوز کو لائن حاضر اور 12کو معطل کر دیا گیا ہے اور مزید کرنے کے لئے بڑھکیں ماری جا رہی ہے ۔ یوسف رضا گیلانی کے ساتھ مشرف دور میں جیل کے اندر جنہوں نے ہتک آمیز سلوک کیا تھا جب وہ وزیر اعظم بنے تو انھیں خدشہ تھا کہ اب ان کے خلاف ضرور کچھ ہو گا لیکن گیلانی صاحب نے ان سے انتقام لینے کے بجائے انہیں ترقی دے کر اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیا ۔ جن لوگوں کو کاروبار مملکت کی کچھ سمجھ ہے انھیں اس بات کا بخوبی اندازہ بھی ہے اور احساس بھی کہ حکومتی معاملات اس طرح نہیں چلتے اور اگر ایسا ہونے لگے تو ریاستی مشینری ڈر اور خوف کے سبب کام نہیں کر پائے گی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ کام کرنے سے انکار کر دے گی اور کارو بار مملکت ٹھپ ہو کر رہ جائے گا ۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ جب تحریک انصاف 2018میں بر سر اقتدار آئی تھی تو اس نے احتساب کے نام پر نیب کو سول بیوروکریسی کے پیچھے لگا دیا تھا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ بیوروکریسی نے نیب کے خوف سے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور جب صورت حال زیادہ بگڑی تو پھر کہیں جا کر نیب کو منع کیا گیا ۔ عمران خان اب بھی یہی کر رہے ہیں کہ وہ الیکشن کمیشن کے اختیار کو مان رہے ہیں اور نہ ہی ایف آئی اے کے نوٹس پر ان کے سامنے پیش ہو رہے ہیں بلکہ نوٹس دینے پر الٹا انھیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ تمہاری جرأت کیسے ہوئی مجھے نوٹس دینے کی۔ یہ سب کچھ اس دیدہ دلیری کے ساتھ ہو رہا ہے کہ توشہ خانہ سے لے کر فارن فنڈنگ/ممنوعہ فنڈنگ تک ہر بات کا اقرار بھی کر رہے ہیں اور شہباز گل کے بیان کو بھی غلط مان رہے ہیں لیکن ہٹ دھرمی کی انتہا ہے کہ یہ کہہ کر کہ ہاں یہ سب کچھ ہم نے کیا ہے لیکن خبردار اگر کسی نے نے ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا اس لئے کہ ہمارا نصب العین ہے کہ ’’ سب کے لئے یکساں قانون ہونا چاہئے‘‘ ۔ یہ وہ فسطائی رویے ہیں کہ پاکستان کے جمہوریت پسند جن کی وجہ سے خدشات کا شکار نظر آتے ہیں اور پنجاب میں حکومت ملنے کے بعد جس قسم کے طرز عمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اس سے ان خدشات کو مزید تقویت مل رہی ہے کہ اگر وفاق میں بھی تحریک انصاف کی حکومت آ گئی تو اس ملک میں جمہوریت کے لبادہ میں سول آمریت کا دور شروع ہو جائے جو ملک و قوم کے لئے تباہی کے مترادف ہو گا ۔