تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنی حکومت گنوانے کے بعد قوم کو آزادی دلوانے نکلے ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ قائد اعظم نے جو آزادی لے کر دی تھی وہ ادھوری تھی۔ وہ امریکا پر اپنی حکومت گرانے کاالزام لگاتے ہیں مگر وہ اس پر امریکی سفارتخانے کے سامنے جا کرمرد ہ باد کا نعرہ لگانے کے لئے بھی تیار نہیں بلکہ ان کے ساتھ شا ہ محمود قریشی اور شہباز گل کہیں بھی یہ نعرہ نہیں لگائیں گے۔ وہ اس بے چاری قوم کے جذبات سے کھیلیں گے، انہیں رمضان کے مہینے میں جلسوں، جلوسوں میں بلائیں گے اور ایک ایسا بیانیہ ترتیب دیں گے جس پر ان سے چار برس کی کارکردگی بارے کچھ نہ پوچھا جائے۔ آٹے، چینی، گھی، پٹرول ، سیمنٹ سمیت پر شے کی قیمتوں کے اوپر آزادی کا نعرہ لگا دیا جائے۔ ان سے یہ سوال نہ ہو کہ آپ کا فلیگ شپ پروگرام ہی لنگر خانے تھا، چار برس میں ملک میں صرف انیس لنگر خانے بنے اور ان کا کھانا بھی سیلانی فراہم کرتا تھا۔ انہوں نے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا نعرہ لگایا مگر ان کے دور میں دو کروڑ بے روزگار ہو گئے ، صرف سترہ ہزار گھر بنے اور ان میں سے بھی کسی ایک کی چابی کسی بے گھر کو نہ ملی۔ وہ انتہائی کامیابی سے کم آئی کیو کے حامی لوگوں کو متاثر کرتے ہوئے داخلی اور خارجی محاذوں پراپنی ناکامیوں کو چھپا رہے ہیں۔
وہ عوام کو آزادی کے گمراہ کن تصور سے بے وقوف بنا رہے ہیں۔ وہ فکری بددیانتی کر رہے ہیں کہ اس جدید دور اور پیچیدہ عالمی نظام میں کوئی ریاست مادر پدرآزادبھی ہو سکتی ہے۔ وہ آزادی کی بنیادی تعریف لے رہے ہیں جس میں کسی بھی شخص یا ریاست کو کچھ بھی کرنے کی آزادی ہے، اس سے کوئی سوال نہیں ہوسکتا مگر آج کے دور میں کوئی بھی ماہر قانون آزادی کے ایسے تصور کی حمایت نہیں کر سکتا۔ سب سے پہلے وہ اپنی آزادی سلب ہونے کے لئے جس مراسلے کی بات کرتے ہیںاس کے طریق کار کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ سفارتکاری سے جڑی ہوئی ہیں۔ دنیا بھر میں سفارتکار دوسرے ممالک میں رہتے ہوئے اپنے اپنے ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ وہ ان ممالک کے ذمہ داران سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور ان سے گفتگو پر مشتمل رپورٹیں اپنے تجزیوں اور تاثرات کے ساتھ بھجواتے ہیں۔ عمران خان بھی ایسے ہی ایک مراسلے کا سہارا لے رہے ہیں جو ابھی تک اپنے مواد اور نتائج میں مشکوک ہے۔ دعویٰ ہے کہ اسے خود لکھوایا گیا ہے اوراس میں کم از کم تین جگہوں پرایسے فقرے ڈالے گئے ہیں جو ان کے مفادات کو پورے کر سکیں۔
بفرض محال، مان لیا جائے کہ یہ ایک سفارتکار کا مراسلہ ہے جو واقعی امریکا کے ایک چوتھے درجے کے سفارتی اہلکار کی گفتگو پر بنیاد کرتا ہے ۔ اگر ممالک ایسے مراسلات اور ڈائیلاگز کو ڈی کلاسیفائی کرنے پر آجائیں تو ہر طرف صرف بدگمانیاںاور لڑائیاں ہوں۔ یہ بچگانہ کام ہے۔ اب محلوں اور خاندانو ں میں بھی ایسی باتوں پر لڑائیاں نہیں ہوتیں جس پر عمران خان ایک پوری تحریک اٹھانا چاہ رہے ہیں۔ وہ آزادی کا غلط تصور پیش کر رہے ہیں۔ یورپین یونین اور امریکا کوپاکستان کی خارجہ پالیسی پر اعتراضات تھے تو دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہمارا رویہ واقعی آزادانہ تھا یا احمقانہ تھا۔ میں پھر آزادی کی بنیادی تعریف کی طرف آؤں گا کہ آزادی کا مطلب ہے آپ کو اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کا حق مگر اب ہر پولیٹیکل سائنٹسٹ آزادی کوذمے داری کے ساتھ جوڑتا ہے اور تشریح یہ ہے کہ آزادی جتنی زیادہ ہو گی اس کے ساتھ ذمے داری بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ میں بہت سادہ سی مثال دینے لگا ہوں کہ آپ کو ہاتھ ہلانے کی آزادی ہے مگر جہاں دوسرے کی ناک شروع ہو جائے وہاں آپ ہاتھ ہلا کے اس کے منہ پر مکا نہیں مار سکتے۔ جب آپ آزادی کا ایسا احمقانہ استعمال کریں گے تو اس کاردعمل ہوگا۔ آپ کو سڑک پر گاڑی چلانے کی آزادی ہے مگر جیسے ہی آپ بڑی سڑک پر جائیں گے تو وہاں ٹریفک سگنل کے سرخ ہونے پر آپ کو کھڑا ہونا ہو گا، وہاں آپ کی اس سڑک کو استعمال کرنے کی آزادی اس وقت تک سلب رہے گی جب تک سگنل سبز نہ ہوجائے۔ آپ کو مری جانے کی آزادی ہے مگر آپ کو بارہ کہو سے آگے سڑک کے کنارے لگے ہوئے بیرئیرز کی پابندی کرنا ہو گی ورنہ آپ مری جانے کی آزادی کے چکر میں کسی کھائی میں جا گریں گے۔ جو لوگ آزادی کا ذمے داری کے ساتھ استعمال نہیں کرتے وہ عمران خان کے پاکستان جیسا ہی حال کرتے ہیں۔
عمران خان کو بطور وزیراعظم آزادی تھی کہ وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی تشکیل دیتے، دوسرے ممالک کے دورے کرتے مگر انہیں ریڈ سگنل اور بیرئیرز کا خیال رکھنا چاہئے تھا۔ انہیں قوم کی گاڑی کو ٹکر مارنے اور تباہ کرنے کا حق نہیں تھا۔انہیں حق نہیں تھا کہ وہ روس اور یوکرائن کی جنگ کے افتتاح کے موقعے پر جا کے اس کا فیتہ کاٹتے۔ انہیں توشہ خانے سے تحائف لینے کاقانونی حق تھا مگر ان کی اخلاقی ، سیاسی اور سفارتی ذمے داری تھی کہ وہ ان تحفوں کی توہین نہ کرتے، انہیں فروخت کر کے مال نہ بناتے۔ ان کی تمام آزادیاں بڑی ذمے داریوں سے مشروط تھیں مگر وہ مادر پدر آزادی کا تصور پیش کر رہے ہیں جس کے ساتھ نہ کوئی شخص اس معاشرے میں رہ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ریاست عالمی برادری میں۔ عمران خان نے آزادی کے تصور کو ہر جگہ مسخ کر کے پیش کیا ہے جیسے ان کے سپیکر، ڈپٹی سپیکر، صدر اور گورنر اپنی آئینی آزادیوں غلط استعمال کر رہے ہیں۔ اسی بات کو ایک اور مثال سے سمجھیں کہ ایک امام کو آزادی ہے کہ وہ امامت کرتے ہوئے جہاں سے چاہے تلاوت کرے مگر اسے اپنی مرضی سے دو ، دو رکوع اور چار، چار سجدے کرنے کی اجازت نہیں ہے، وہ ایسا کرے گا تو امامت سے فارغ ہو جائے گا۔فارن فنڈنگ کیس بھی اس کی ایک مثال ہے۔ پی ٹی آئی کو عطیات لینے کی اجازت ہے مگر انڈیا اور اسرائیل سے نہیں اور اسی طرح شوکت خانم کے عطیات کواپنے سیاسی اور ذاتی اکاؤنٹس میں لے جانے کی بھی آزادی نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمارے بہت سارے لوگ عمران خان کی آزادی کے اس تصور سے متاثر کیوں ہورہے ہیں تواس کا جواب یہ ہے کہ سب نہیں صرف وہ ہورہے ہیں جن کا آزادی کا سیاسی اور معاشرتی تصور کمزور ہے۔ جو ٹھوس عمل نہیں بلکہ لچھے دار گفتگو سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم قانون کی پاسداری اور اخلاقیات کے تقاضوں کو کمزوری اور بزدلی سمجھتے ہیں۔ ہمارا ہیرو وہ نہیں ہوتا وہ ریڈ سگنل پر گاڑی کھڑی کرکے اس کے گرین ہونے کا انتظار کرتا ہے۔ ہم بڑی حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے ہیں جو تیزی سے اشارہ توڑ کے نکل جاتا ہے۔ ہم اس کو سراہتے ہیں، کہتے ہیں واہ کیا کمال کر دیا مگر سنجیدہ اوراہل علم جانتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ ہماری زندگیوں سے بھی کھیل کر گیا ہے۔ عمران خان ایسے ہی بچگانہ ذہنوں کو متاثر کر رہے ہیں۔وہ زبان کا استعمال جانتے ہیں۔ وہ بھاٹی لوہاری کے مجمعے بازوں کی طرح جعلی ادویات بیچ رہے ہیں۔ وہ جس آزادی کی بات کر رہے ہیں وہ ان کی حماقتیں ہیں، لالچ ہے، خود سری ہے۔ اب دنیا بھر میں کوئی سمجھدار آدمی ہوس، بے وقوفیوں اوربدتمیزیوں کو آزادی نہیں سمجھتا۔ہم الحمد للہ ایک آزاد قوم ہیں اور ہمیں ایک ذمے دار قوم بننا ہے۔ عالمی برادری میں غیر ذمے داری کی ہم پہلے بہت بڑی قیمت ادا کر چکے ہیں۔