مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک زرّیں جملہ ''قطرہ قطرہ قلزم'' میں درج ہے۔ فرماتے ہیں ''جب اہلِ باطن اہل ِثروت کا تزکیہ نہ کریں تو اُن کا تقرّب حرام ہے۔ جب فقرا اِسلامی ملک میں بھی اِخفاء سے کام لیں تو مصلحت اندیشی ہے‘ اور مصلحت اندیش درویش نہیں ہو سکتا'' یہ جملہ متعدد مرتبہ سوشل میڈیا پر شیئر ہوا، مزارِ اقدس میں بھی ایک فریم میں درج ہے اور زائرین کی توجہ کا دامن اپنی طرف کھینچتا ہے۔ سچ پوچھیں توفقیر کے اِس فقرے کی حقانیت مطلع شعور پران دنوں کھلی جب سیاست کے میدان میں اکھاڑ پچھاڑ شروع ہوئی۔ سیاست کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا بھی ایک میدانِ جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ در اِیں اثنا‘سیاست کے میدان میں حاضری اور غیر حاضری دونوں ہی مصلحت کے پردوں کو چاک کر گئیں۔ جنہوں نے مصلحت کا پردہ رکھا‘ اُن کی درویشی کا پردہ چاک ہوگیا۔ ملکی سیاست میں کسی ادیب، شاعر، دانشور، صوفی اور درویش کو کتنا دخل دینا چاہیے اور کہاں تک اجتناب کرنا چاہیے‘ آج کا موضوعِ سخن یہی ہے۔
مرشدِ خیال نے ایک مرتبہ فرمایا کہ ملکی حالات سے اس طرح بھی بے تعلق اور بے حس ہو کر نہیں گزرنا چاہیے جس طرح سقوطِ ڈھاکہ کے موقع پر ایک مفسرِ قرآن سے جب اِس سانحے کے بارے میں پوچھا گیا تو اُس نے کہا‘ میں تو آج کل تفسیر لکھنے میں مصروف ہوں۔
یہاں پارٹی بازی کی بات ہوتی ہے‘ نہ کسی فکری قلابازی کی، بلکہ ایک اصول متعین کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ ایک ـ’’اصول‘‘ تو یار لوگوں کے ہاں یہ ٹھہرا کہ ہمارا ایک مخصوص دائرہِ کار ہے، ہم اس دائرے کے باہرقدم نہ رکھیں گے اور سیاست میں دخل نہ دیں گے۔ دراصل ہر صاحب رائے شخص رائے ساز بھی ہوتا ہے۔ شاعر، ادیب، کالم نگار، استاد، صوفی، دانشور، یا پھر موٹیویشنل اسپیکر، ہر صاحبِ رائے کے قدم بہ قدم چلنے والے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو اُس کی رائے دیکھ کر اپنی رائے قائم کرتے ہیں،یعنی ہماری فکری رعیت ہماری سیاسی رائے سے بھی متاثر ہوتی ہے۔ ایسے میں ایک آسان راستہ تو مصلحت کوشی کا راستہ ہے کہ اسی میں بچت ہے،اس میں قارئین، معتقدین اور مریدین ضائع نہیں ہوتے۔ سیاسی وابستگیاں متفرق ہوتی ہیں‘ اس لیے سیاسی رائے کو محفوظ رکھناہی ایک محفوظ راستہ تصور کیا جاتا ہے، کیونکہ اس میں پبلک امیج متاثر نہیں ہوتا۔ یہ سننے کو نہیں ملتا ’’ہمیں آپ سے ہرگز یہ توقع نہ تھی‘‘، اس طرزِ فکر میں فین فولونگ متاثر نہیں ہوتی، لوگ حلقہ اثر سے واک آئوٹ نہیں کرتے۔ اس مجوزہ محفوظ راستے کے برعکس بھی ایک راستہ ہے‘ جو غیرمحفوظ ہے — یہ حق اور سچ کا راستہ— حق بات کی گواہی دینے کا راستہ۔ یہاں ہزار خوف ہے لیکن زبان دل کی رفیق ہے۔ اس میں اپنے بھی خفا ہیں اور بیگانے بھی ناخوش‘ کیونکہ یہاں زہرِ ہلاہل کو کبھی قند نہ کہنے کی قلندرانہ روش پائی اور اپنائی جاتی ہے۔ اس میں شرکت میانِ حق و باطل قبول نہیں کی جاتی۔ دوئی پسندی منافقت کے ہم معنی تصور کی جاتی ہے۔
جب قوم ایک فکری دوراہے پر کھڑی ہو‘ توصاحبانِ فکر پر خاموشی حرام ہو جاتی ہے۔ فکری دوراہے پر خاموش رہنادرپردہ غلط موقف کی توثیق کرنے کے مترادف ہے۔ سچ بات کی گواہی دینا ہمیشہ سے دشوار رہا ہے۔ حق طلب، حق بین اور حق آگاہ‘ دشوار راستہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ راستہ اگرچہ طویل ہے، ملامت کی دھول سے اَٹا ہوا ہے لیکن آخر کار اسی میں راحت ِ جاودانی ہے۔ درحقیقت حق کے متلاشی کسی دھڑے یا گروہ کی اندھا دھند ہمنوائی نہیں کرتے۔ وہ کسی نظریے کی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں، وہ کردار دیکھ کر کردار کی گواہی دیتے ہیں۔ کرگس کا کردار کہاں پرورش پا رہا ہے اور شاہین کے کردار کی جھلک کس طرف نظر آتی ہے‘ اِس کا تعین کرنا ضروری ہے۔’’پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں‘‘ اقبالؒ کا مصرع بھی ہے اورایک مضمونِ واصفؒ بھی— یہ شعر اور مضمون دونوں پڑھ کر فیصلہ کرنا چاہیے‘ ناموں سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ ظاہر پرست ہر اِسم کو بامسمیٰ سمجھ لیتے ہیں۔
کوئی انسان مطلق فرشتہ ہوتا ہے ‘نہ مجسم شیطان۔ بشر ایک مجموعہِ خیر وشر ہے۔ کسی بندہ بشر سے‘ خطا کے پتلے سے معصوم عن الخطا ہونے کی توقع قائم نہ کرنی چاہیے، اور نہ کسی سیاسی شخصیت کو یک قلم شیطان صفت قرار دیناہی قرین ِ دانش ہے۔ بدزبانی اور بدکلامی بہت ہو چکی، دشنام طرازی کے باب بند ہونے چاہئیں۔ اختلافِ رائے کو شایستگی اور تہذیب کے دائرے میں واپس آنا چاہیے۔ ہر بات کا جواب اور پھر جواب الجواب سے پرہیز کرنا چاہیے۔ دوسروں کا نہ سہی‘ آپ کا وقت تو قیمتی ہے‘ اسے بے مقصدمباحثوںمیں ضائع نہ کرنا چاہیے۔ اصول یہ ہے کہ اپنا اصول بیان کرو، اپنا نظریہ بیان کرو اور بطریقِ احسن بیان کرو، لیکن کسی دوسرے اصول پر کھڑے انسان کی تضحیک و تذلیل نہ کرو۔ دلیل اور تذلیل میں فرق ملحوظ رکھو۔ اصول یہ ہے کہ دھرم کا ساتھ دینا ہے ‘ دھڑے کا ساتھ نہیں دینا۔ اگر سوشل میڈیا کا لاؤڈ سپیکر ہاتھ میں آ جائے تو زندگی کا واحد مقصد اپنے دھڑے کی تعریف و توصیف اور مخالف کی طعن وتضحیک نہ ہونا چاہیے۔ یہ تعصب اور ضد ہے۔ تعصب اور نفرت بصیرت کو سلب کر لیتے ہیں۔ سیاست کے میدان میں شائستگی کا تقاضا یہی ہے کہ بات کسی رہنما اصول اور نظریے کے بیان میں کی جائے۔
ایک طرف نظریۂ حیات ہے اور دوسری طرف نظریۂ ضرورت۔ ایک طرف زعم ِ زور و زَر ہے، دوسری طرف عزمِ فقرِ بُوذرؓ ہے۔ ایک طرف امیری کا طریق ہے، دوسری طرف فقیری کا طور ہے۔ ایک طرف غریبی اور مفلسی کا ڈر ہے، دوسری طرف نعرۂ لاحذر ہے۔ ایک طرف اخلاص ہے اور اخلاص کا تحفہ تنہائی ہے، دوسری طرف مفادات کی ٹولیاں ہیں اور بھانت بھانت کی بولیاں ہیں۔ ایک طرف حکمت کی بات ہے، دوسری طرف حکومت کی بات۔ ایک طرف ایک حرفِ ''لا'' ہے، دوسری طرف لغت ہائے قانون ہے، دنیاوی الٰہ کی طرف داری میں لفظوں کی قارون سامانی ہے۔ ایک طرف قانون کے لفظوں پر پہریداری کا شور ہے، دوسری طرف روحِ قانون کی پامالی کا شعور ہے۔ ایک طرف خودی اور خودداری کی باتیں ہیں، دوسری طرف مفلسی سے ڈرنے اور ڈرانے کی باتیں ہیں۔ قرآن گواہی دیتا ہے کہ ’’شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے‘‘۔ مفلسی کے ڈر سے کیے گئے فیصلے’’خطوات الشیطان‘‘ پر لے جاتے ہیں۔
سوئے اتفاق کہیں یا حسنِ اتفاق— ایک بیانیے کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ جیسے بھی ہوا‘ عوام میں خودی اور خودداری کا بیانیہ عام ہو چکا ہے۔ زبانِ خلق کو اب نقارۂ خدا سمجھو۔ بات مناقشوں اور مناظروں سے آگے نکل چکی ہے۔ خودی اور خودداری دراصل اقبالؒ کا بیانیہ ہے، اسے خاص و عام میں عام تو ہونا تھا— دعائے اقبالؒ نے کبھی باریاب توہونا تھا ،اُس کے نورِ بصیرت نے کبھی عام توہونا تھا۔ اب یہ قسمت کی بات ہے‘ کس کی زبان سے یہ بیانیہ زبان زد عام ہوا۔ یہ قرعہ فال اَب جس کے نام نکلا‘ سو نکلا۔ اِس بیانیے کے حق میں ایک ہوا چل پڑی ہے— اور یہ ہوا بہت پیچھے سے چلتی ہے۔ یہ منشائے خداوندی کی مرسلات ہیں، بہت پیچھے سے چلتی ہیں— وہاں سے چلناشروع ہوتی ہیں‘ جہاں پرسبب اور نتیجے کی داستان ختم ہو جاتی ہے — یہاں مراسلے کی نہیں ‘مرسلات کی بات ہو رہی ہے — بہرطور جس کے حق میں یہ ہوا چلتی ہے‘ مخلوقِ خدا کے دل اُس کی طرف بے محابا مائل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جہاں دل کے سودے ہونے لگیں‘ وہاں دلیل کیا کرے گی۔ یہ رب کا فضل ہے‘ اس میں کسی کا ماضی دیکھا جاتا ہے‘ نہ حال — بس اس کے بارے میں صرف سوچا جاتا ہے۔ ایک شخص کو کھیل کے میدان سے نکال کر فضل کی داستان میں شامل کر لیا گیا۔ اب یہاں سیاسی جماعتوں کے قصے سنانے کی ضرورت ہے‘ نہ اداروں کے قضیے نپٹانے کی حاجت — عدلیہ کی عدالت اور اداروں کی شجاعت اب ایک اضافی بحث بن چکی ہے۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ایک شخص راتوں رات تخت سے اُتر کر سیدھا دلوں میں اُتر جاتا ہے۔ ہم کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے — جس پر فضل ہو رہا ہو‘ اُس پر معترض ہو کر ہم محرومِ فضل کیوں ٹھہریں۔ ہم تو خود فضل کے امیدوار ہیں۔ غفلت کے اندھیرے میں دور سے آنے والی آواز کے منتظر!!’’دور کی آواز‘‘ جو اندھیرے میں روشنی کا کام سرانجام دیتی ہے۔ اِس فقیر نے اپنے حصے کی گواہی پیش کر دی ہے۔ اب جس کے جی میں آئے دُشنام کرے، جو چاہے انعام کرے!!!