اسلام آباد:سپریم کورٹ نے کرونا سے متعلق از خود نوٹس کیس میں بیت المال اور زکوة فنڈز کی رقوم کی ادائیگی میں شفافیت اور کرونا وائرس سے متعلق اقدامات پر تمام صوبوں اور وفاق سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے زکوة کا فنڈتنخواہ اورانتظامی اخراجات پر خرچ ہوسکتا ہے یا نہیں، عدالت نے اسلامی نظریاتی کونسل مفتی اعظم پاکستان سے رائے مانگ لی جبکہ ججز نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حکومتی اقدامات پر سوالات اٹھاتے ہوئے فنڈز خرچ کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے پوچھا اور کہا ہے کہ وفاق ہو یا صوبائی حکومتیں ، کسی عمل میں شفافیت نظر نہیں آرہی ہے،9 ارب سے زائد رقم وفاق نے صوبوں کو دی، صوبے آگے رقم کا کیا کررہے ہیں اس کی نگرانی ہونی چاہیے،نگرانی سے صوبائی خود مختاری پر کوئی حرف نہیں آتا، مانیٹرنگ بھی ایک طرز کا آڈٹ ہے، ڈیٹا ایک دوسرے شیئر ہونا چاہیے، زکوٰة کا پیسہ لوگوں کے ٹی اے ڈی اے اورباہر دورے کروانے کےلئے نہیں ہے، یہی حال بیت المال اورزکوٰاة کے محکمے کے ساتھ ہے،زکوٰةکے پیسے دفتری امور پر نہیں خرچ کیے جا سکتے،جس مقصد کےلئے یہ پیسے آتے ہیں یہ وہیں خرچ ہونے چاہئیں، کو زکوٰة فنڈ کا آڈٹ کروانا چاہیے،عوام اوربیرون ملک سے آیا پیسہ نہ جانے کیسے خرچ ہورہا ہے،صوبوں کے بنائے قوانین کا جائزہ لینا ضروری ہے، سندھ میں 8 ارب کے اعداو شمار پر ہم نے یقین نہیں کیا، کپڑے کی دکان کھولے بغیر درزی کھولنے کا کیا فائدہ ہوگا؟درزی کو کپڑا اور دیگر چیزیں بھی چاہیے ہوتی ہیں، ایسے تو درزی ہاتھ ہر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے گا،سندھ میں بعض صنعتوں کو کام کی اجازت دینا اچھا فیصلہ ہے؟۔ پیر کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کورونا واوئرس از خود نوٹس پر سماعت کی ،اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل اور دیگر عہدیدار بھی عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے سماعت کاآغاز کرتے ہوئے کورونا وائرس کے حوالے سے اقدامات پر کہا کہ صوبوں اوروفاق کے مابین کوئی طریقہ کار دکھائی نہیں دے رہا۔چیف جسٹس نے کہا کہ بیت المال والوں نے عدالت میں جوا ب بھی جمع نہیں کرایا، عدالت کو کیا معلوم بیت المال کیا کررہا۔انہوں نے کہا کہ تمام حکومتیں ریلیف کی مد میں رقم خرچ کررہی ہیں لیکن ہے اور کسی بھی عمل میں شفافیت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ 9 ارب سے زائد رقم وفاق نے صوبوں کو دی، صوبے آگے رقم کا کیا کررہے ہیں اس کی نگرانی ہونی چاہیے۔انہوںنے کہاکہ نگرانی سے صوبائی خود مختاری پر کوئی حرف نہیں آتا، مانیٹرنگ بھی ایک طرز کا آڈٹ ہے، ڈیٹا ایک دوسرے شیئر ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ زکوٰة کا پیسہ لوگوں کے ٹی اے ڈی اے اورباہر دورے کروانے کےلئے نہیں ہے، یہی حال بیت المال اورزکوٰاة کے محکمے کے ساتھ ہے۔انہوں نے کہا کہ بیت المال کا بھی بڑا حصہ انتظامی امور پرخرچ ہوتا ہے اور وہ کسی کو فنڈ نہیں دیتے، مسئلہ یہ ہے کہ کسی کام میں شفافیت نہیں ہے۔اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ حکومت ہو یا کسی اور صوبے کی حکومت مسئلہ شفافیت کا ہے،صرف یہ بتایا گیا کہ امداد دی گئی لیکن تفصیل نہیں دی گئی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق وفاق نے 9 ارب سے زائد زکوٰة جمع کی، مستحقین تک رقم کیسے جاتی ہے اس کا کچھ نہیں بتایا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ زکوٰةکے پیسے دفتری امور پر نہیں خرچ کیے جا سکتے، لوگ منتیں مانتے ہیں تو وہاں چیزیں رکھ دیتے ہیں اورصدقے کے پیسے بھی وہاں جمع کرواتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ صدقے کے پیسے آفیسروں کی تنخواہوں پر کیسے لگائے جا سکتے ہیں، جس مقصد کےلئے یہ پیسے آتے ہیں یہ وہیں خرچ ہونے چاہئیں.چیف جسٹس نے کہا کہ مزارات کے پیسوں سے افسران کیسے تنخواہ لے رہے ہیں، ڈی جی بیت المال بھی زکوٰةفنڈ سے تنخواہ لے رہے ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ افسران کی تنخواہیں حکومت کو دینی چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ زکوٰة کا پیسہ بیرون ملک دوروں کے لیے نہیں ہوتا، زکوٰةفنڈ کا سارا پیسہ ایسے ہی خرچ کرنا ہے تو کیا فائدہ، عوام کو ضرورت پیدا ہو تو ایسے مسائل سامنے آتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ مزارات کی حالت دیکھ لیں سب گرنے والے ہیں، سمجھ نہیں آتا اوقاف اور بیت المال کا پیسہ کہاں خرچ ہوتا ہے، سہیون شریف بازار کی بھی مرمت ہوتی تو چھت نہ گرتی، مزارات کا پیسہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کے لیے ہوتا ہے۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ جو قوانین صوبوں نے بنائے ہیں ان کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے، قرنطینہ مراکز میں مقیم افراد سے پیسے لیے جارہے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قرنطینہ کےلئے ہوٹلوں کا انتخاب کن بنیادوں پر کیا گیا، تمام ہوٹلوں کو قرنطینہ بنانے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا، جو پیسے نہیں دے سکتے انہیں مفت قرنطینہ میں منتقل کیا جانا چاہیے، حاجی کیمپ قرنطینہ مراکز میں حالات غیر انسانی ہیں۔سیکریٹری صحت تنویر قریشی سے چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اسلام آباد میں کتنے قرنطینہ سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اسلام آباد کی قفاقی حدود میں 16 قرنطینہ مراکزقائم ہیں، ان میں ہوٹلوں، حاجی کیمپ، او جی ڈی سی ایل بلڈنگ اورپاک چائنا سینٹرشامل ہیں، بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کو 24 گھنٹے ان قرنطینہ مراکزمیں رکھا جاتا ہے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ ان قرنطینہ مراکز میں ان کا خرچ کون برداشت کرتا ہے، سیکریٹری صحت نے کہا کہ حکومت اس کا خرچ برداشت کرتی ہے۔اسکریننگ پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ پیناڈول وغیرہ کھا کر اسکریننگ سے بچ نکلتے ہیں، مردان میں ایک شخص نے دو پیناڈول کھائی اوروہ اسکرین سے بچ نکلا جس پر سیکرٹری صحت نے کہا کہ اسی لیے اب 24 گھنٹے قرنطینہ میں رکھ رہے ہیں۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز میں لوگ کیوں شورمچا رہے ہیں، کیا آپ حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز دیکھ کر آئے ہیں، تاہم سیکریٹری صحت نے کہا کہ میں نہیں گیا لیکن ایڈیشنل سیکریٹری خود ہوکرآئے ہیں۔چیف جسٹس نے سیکریٹری صحت سے کہا کہ آپ حاجی کیمپ، او جی ڈی سی ایل اورپاک چائاہ سینٹر خود جاکر دیکھیں اور سیکریٹری صحت نے کہا کہ دورہ کرکے سہولیات کی فراہمی یقینی بناو¿ں گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ قرنطینہ مراکز میں کھانا اور تمام بنیادی سہولیات کی دستیابی یقینی بنائیں، تفتان کے قرنطینہ میں رہنا بھی ڈراو¿نا خواب تھا، حکومت پیسے بہت خرچ کر رہی ہے لیکن نظر کچھ نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے۔جسٹس قاضی امین نے سوال کیا کہ کیا پلازما انفیوژن سے کورونا کاعلاج واقعی ممکن ہے، جس پر سیکریٹری صحت تنویر قریشی نے کہا کہ یہ اب ٹیسٹنگ کے مراحل میں ہے، ابھی تک پلازما انفیوژن کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ چک شہزاد میں 32 کنال پر قرنطینہ مرکز بنا رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ قرنطینہ مراکز میں گرمیوں میں کیا سہولیات ہوں گئی؟۔ایڈیشنل کمشنراسلام آباد نے چیف جسٹس کو بتایا کہ ایئرکنڈیشنڈ کی ضرورت ہوئی تو فراہم کریں گیے اس موقع پر چیف جسٹس نے ان سے پوچھا آپ کون صاحب ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام اباد ہوں۔چیف جسٹس نے وسیم خان کو روسٹرم سے ہٹاتے ہوئے کہا کہ آپ جاکر سیٹ پر بیٹھیں اور کہا کہ کیا آپ کو اے سی لگانے کا خرچہ معلوم ہے۔جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ فائبر کا قرنطینہ بہت جلد گرم ہو جائےگا۔اس موقع پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ ورلڈ بینک کے پیسوں سے یونیسف سے خریداری کا کیا معمہ ہے، یہ تو پیسہ ایک ہاتھ سے لے کر دوسرے ہاتھ سے دینے کی بات ہے۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کسی صوبے اور محکمے نے شفافیت پر مبنی اپنی رپورٹ نہیں دی۔چیف جسٹس نے کہا کہ عوام اور بیرون ملک سے لیا گیا پیسہ نہ جانے کیسے خرچ ہو رہا ہے، کھربوں روپے خرچ ہو چکے اور مریض صرف 5 ہزار ہیں۔جسٹس قاضی امین نے کہا کہ قرنطینہ مراکز بنانے کے بجائے اسکول اور کالجوں کا استعمال کیوں نہیں کیا جاتا، نئے قرنطینہ مراکز بنانے پر پیسہ کیوں لگایا جارہا ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اسکولوں کی تجویز اچھی ہے اس پر غور کریں گے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت ایزی پیسہ کے ذریعے امدادی رقم تقسیم کر رہی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خرچ کی گئی رقم کی تفصیلات پیش نہیں کی گئیں۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا زکوٰة فنڈ سے تنخواہ دینا شرعی طور پر جائز ہے، کیا زکوٰة کے پیسے سے انتظامی اخراجات کرنا جائز ہے، کیا محکمہ زکوٰة کا بنایا گیا قانون شریعت سے متصادم نہیں۔انہوں نے کہا کہ زکوٰة فنڈ کس کو مل رہا ہے یہ ایک معمہ ہے۔سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے سامنے ایڈووکیٹ جنرل سندھ پیش ہوئے اور کہا کہ سندھ میں56 کروڑ 90 لاکھ روپے 94 ہزارسے زائد افراد کو دئیے گئے اور تمام رقم زکوٰة فنڈز سے مستحقین کو دی گئی۔جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا کہ یہ 569 ملین روپے کن افراد کو اداکیے گئے تو ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ زکوٰة انہی افراد کو دی گئی جنہیں ہرسال دی جاتی ہے، سندھ میں فی کس 6 ہزار روپے زکوٰة دی گئی۔ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ لازمی نہیں کہ کورونا کا ہر مریض بیمار بھی ہو، سیل کی گئیں کراچی کی 11 یونین کونسلوں کی کل آبادی 6 لاکھ 74 ہزار سے زائد ہے۔انہوں نے کہا کہ 12اپریل تک 234 کورونا کیسز ان 11 یونین کونسل سے سامنے آئے تھے۔انہوںنے کہاکہ ایک سینٹر میں 1200 مریض رکھنے کی گنجائش ہے جبکہ 168 افراد کو گھروں میں ہی قرنطینہ کیا گیا ہے، 45 مریض ہسپتال میں ہیں جن کی حالت تشویش ناک ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ عدالت کو فراہم کی گئیں تمام معلومات درست ہیں جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو علم نہیں ہوا کہ سندھ حکومت نے ایک ارب کا راشن بانٹ دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ حکومت چھوٹا سے کام کرکے اخباروں میں تصویریں لگواتی ہے جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ صبح 4 سے 7 بجے تک گھرگھر راشن تقسیم کیا جاتا ہے.
اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ہمارے صوبے کے بارے میں باتیں کیوں بنتی ہیں، سندھ سے متعلق باتیں بلاوجہ تو نہیں بنتی کوئی تو وجہ ہے۔ایڈووکیٹ سلمان طالب الدین نے کہا کہ 30 مارچ سے راشن تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو آج تک جاری ہے، کورونا پر سیاست نہیں کرنا چاہتے اس لیے تصویریں بھی نہیں بنا رہے ہیں۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ میڈیا پر سنا ہے کہ ایکسپائرڈ اٹا اور چینی دی گئی جبکہ جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال کیا کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ میں راشن کی تقسیم کےلئے 22 ہزار گھروں کا تعین کیسے کیا گیا کیا ان گھروں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ایڈووکیٹ سلمان نے کہا کہ یونین کونسلوں کی کمیٹیاں مستحقین کا چناؤ کرتی ہیں جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ چھوٹا نہیں بلکہ ایک یورپی ملک کے برابر ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ جس گھر کو راشن دیا گیا انہیں تو معلوم ہے، ایک بیگ میں دس دن کا راشن ہوتا ہے۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ مانتے ہیں سندھ حکومت کو اس بار تشہیر کی ضرورت نہیں ہے تاہم تقسیم کا کام تو ایک دن میں نہیں ہوا ہو گا، جے ڈی سی والے راشن تقسیم کرتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ کتنا راشن تقسیم ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس کی تکلیف ہوتی ہے کہ ہمارے صوبے کے بارے باتیں کیوں بنتی ہیں جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ باتیں کرنے والے تو باتیں کرتے ہیں۔جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس راشن وصول کرنے والوں کی فہرستیں موجود ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس فہرستیں موجود ہیں اور راشن فراہمی کا دوسرا مرحلہ جلد شروع ہو جائےگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے مرحلے میں مزید ڈیڑھ ارب خرچ ہوں گے اور بالآخر سندھ حکومت 8 ارب روپے تک پہنچ ہی جائے گی۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ 8 ارب کی معلومات غلط ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 8 ارب روپے کے اعداو شمار پر ہم نے یقین نہیں کیا۔ایڈووکیٹ سلمان نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ سندھ میں معاشی سرگرمیاں شروع ہونے جارہی ہیں جو صنعتیں کھلیں گی وہ مخصوص دنوں میں ہی کام کریں گی۔ انہوںنے کہاکہ جن کی ملازمت شروع ہو گی انہیں راشن کی ضرورت نہیں رہے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ کپڑے کی دوکان کھولے کے بغیر درزی کی دکان کھولنے کا کیا فائدہ ہوگا، درزی کو کپڑا اور دیگر چیزیں بھی چاہیے ہوتی ہیں، ایسے تو درزی ہاتھ ہر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ میں بعض صنعتوں کو کام کی اجازت دینا اچھا فیصلہ ہے، فیکٹریز ایکٹ پر سندھ کی کوئی فیکٹری پورا نہیں اترتی، ملازمین کے تحفظ کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ بلدیہ فیکٹری میں آگ لگی تو لوگوں کو بھاگنے کا راستہ بھی نہ ملا جبکہ فیکٹری کی کھڑکیاں بھی سیل کر دی گئی تھیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ فیکٹری ورکرز کے حوالے سے قانون پر عمل نہیں ہو رہا، فیکٹری مالکان اپنے عملے کو انسان نہیں سمجھتے جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ایس او پیز پرعمل نہ کرنے والی تین فیکٹریوں کوبند کردیا گیا ہے۔ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوا اسے بھول کر آگے بڑھ رہے ہیں، سندھ میں صرف مقامی تیار کردہ کٹ استعمال ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ این 95 ماسک 425، سرجیکل ماسک 27 روپے میں مل رہے ہیں جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا کہ سندھ حکومت کے لیے خریداری کون کر رہا ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سول سوسائٹی کے نمائندگان پر مشتمل کمیٹی خریداری کرتی ہے، سول سوسائٹی کو ڈالنے کا مقصد بے جا الزامات سے بچنا تھا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے زکوٰة کی رقوم کی ادائیگی میں شفافیت سے متعلق صوبوں اور آئی سی ٹی سے رپورٹ طلب کر لی۔عدالت عظمیٰ نے بیت المال کی شفافیت سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ چاروں صوبے اور وفاق آئندہ سماعت سے قبل کورونا وائرس پر اقدامات کے حوالے سے پیش رفت رپورٹ جمع کرائیں۔ عدالت نے آبرزویشن دی کہ توقع ہے وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوامی مفاد میں متفقہ فیصلے کرینگی۔وباءسے نمٹنے کیلئے حکومتی ادارے آپس میں تعاون کریں۔سماعت کے د وران سینیٹر رحمان ملک نے کہاکہ سینیٹ قائمہ کمیٹی داخلہ کی تفصیلی رپورٹ عدالت کو دینا چاہتا ہوں جس پر عدالت نے رحمان ملک کی بریفننگ دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہاکہ آپکی رپورٹ آگئی ہے ہم دیکھ لینگے، کیس کی سماعت مزید 2 ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔