ازبکستان کے شہر سمر قند میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف سے روس کے صدر ولادی میر پوتن نے ملاقات کی، جس میں روسی صدر نے کہا کہ پاکستان کو پائپ لائن کے ذریعے گیس کی فراہمی ممکن ہے۔ ملاقات میں فوڈ سکیورٹی، تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، دفاع اور سکیورٹی سمیت باہمی فائدے کے تمام شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔ جب کہ اس ملاقات سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے ازبکستان کے صدر شوکت مرزایوف سے ملاقات کی جس میں دو طرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ تجارت اور معیشت کے شعبوں میں تعلقات کو مضبوط بنانے، ریل، سڑک اور بندرگاہوں کے ذریعے علاقائی رابطے کے فروغ سے متعلق امور پر گفتگو ہوئی۔ پاکستان جو اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے، اوپر سے سیلاب نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے، ایسے کڑے وقت میں روس کی جانب سے گیس کی فراہمی کی یقین دہانی اور باہمی تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو گا، کیونکہ ہمارے یہاں توانائی کا بحران اورگیس کی قلت بہت زیادہ ہے، ہمیں اپنا ملکی معاشی پہیہ چلانے کے لیے گیس کی بھی ضرورت ہے۔ دوسری جانب پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک سے زراعت میں معاہدہ کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف دورہ ازبکستان کے دوران معاہدے پر دستخط کریں گے، جسے زرعی شعبے میں اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں سرکولیشن سمری کے ذریعے زرعی شعبے میں معاہدے کی منظوری وفاقی کابینہ اراکین سے بھی لے لی گئی جب کہ ماضی میں شنگھائی تعاون تنظیم کی جانب سے پاکستان سے مختلف شعبہ جات میں تعاون بھی کیا گیا، اگر ہم شنگھائی تعاون تنظیم کی اہمیت کی بات کریں تو پاکستان اور بھارت کی شمولیت کے بعد سے تنظیم کا دائرہ بحرِ ہند کے ساحلوں تک پھیلا اور اگر بھارت کی آبادی بھی ملا لی جائے تو شنگھائی ممالک کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا کم و بیش نصف بنتی ہے۔ رقبے کے اعتبار سے شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک دنیا کے سب سے بڑے براعظم ایشیا کے 77 فیصد زمینی رقبے کے مالک ہیں جب کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک میں ازبکستان، قازقستان اور تاجکستان تیل و گیس کے وسیع ذخائر کے مالک ہیں۔ الغرض شنگھائی تعاون تنظیم سے زراعت سمیت مختلف شعبہ جات میں دو طرفہ تعاون، معاہدوں اور سرمایہ کاری کی دعوت دے کر پاکستان میں انقلاب لایا جا سکتا ہے اور بلاشبہ زرعی شعبے میں معاہدے کی نوید کو اس ضمن میں ایک مثبت قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک مضبوط یوریشیائی اتحاد نہ صرف اقتصادی تعاون بلکہ علاقائی سلامتی کے لیے بھی ضروری ہے۔ سمرقند کانفرنس تیزی سے بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست کے ماحول میں انتہائی نازک وقت پر ہو رہی ہے۔ صرف یہ نہیں ہے کہ رسمی اجلاسوں میں کیا بات کی جائے گی، بلکہ شاید اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سائیڈ لائن میٹنگز میں کیا ہوتا ہے۔ سیاسی، اقتصادی اور عسکری شعبہ جات میں آپس میں تعاون کرنے والے ممالک کے لیے عالمی پلیٹ فارم سمجھی جانے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک میں قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان بھی شامل ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا سربراہی اجلاس عالمی رہنماؤں کو علاقائی اور عالمی چیلنجوں پر بات چیت کرنے اور رکن ممالک کے درمیان تنازعات کے باوجود مشترکہ اہداف اور مقاصد کے بارے میں کچھ سمجھنے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ کانفرنس کے موقع پر دو طرفہ ملاقاتیں برف کو توڑنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ سمرقند اجلاس میں کثیر الجہتی تعاون کے امکانات پر بات چیت کی توقع ہے، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ سائیڈ لائن ملاقاتوں میں کون سے امور طے پاتے ہیں۔ اس کانفرنس ایک اہم واقعہ روسی صدر ولادی میر پوتن اور چینی صدر کے درمیان طے شدہ ملاقات ہو گی، جو یوکرین پر روسی حملے کے بعد پہلی ملاقات ہو گی، جب کہ چین نے ماسکو کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے، لیکن اس نے حملے کی حمایت نہیں کی ہے۔ ماسکو یوکرین میں اس کے اقدامات پر بے مثال مغربی پابندیوں کے بعد بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ماسکو اور بیجنگ دونوں نہ صرف جغرافیائی سیاست بلکہ جیو اکنامکس میں بھی امریکی تسلط کو چیلنج کر رہے ہیں۔ یہ انہیں ایک سٹرٹیجک اتحاد کے قریب لایا ہے۔ توقع ہے کہ سلامتی اور استحکام سے متعلق مسائل، توانائی اور خوراک کے بحران اور اقتصادی تعاون سربراہی اجلاسوں میں بحث پر غالب رہیں گے۔ ایران کی شمولیت سے دائرہ کار بھی وسیع ہو جائے گا۔ ایران کے مکمل رکن بننے کی توقع کے ساتھ، شنگھائی تعاون تنظیم کو مزید وسعت دی جائے گی۔ اراکین کے درمیان تنازعات سے قطع نظر، SCO نے بہت سے معاملات پر تعاون کے لیے ایک مفید فورم فراہم کیا ہے۔ سمرقند سربراہی اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع نے علاقائی کشیدگی کو بڑھاوا دے رکھا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ دو سال کے وقفے کے بعد ایک دوسرے کی موجودگی میں ہوں گے۔ یہ یقینی طور پر بہت اہم ہے کہ انہوں نے سربراہی اجلاس سے عین قبل لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ فوجی دستوں کو ہٹانے پر اتفاق کیا۔ دوسری جانب نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات اب بھی منجمد ہیں جس کے پگھلنے کے آثار نہیں ہیں۔ دو روزہ کانفرنس کے سلسلے میں وزیر اعظم کی اپنے ہندوستانی ہم منصب سے ملاقات کے امکان کے بارے میں کافی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ تاہم ابھی تک دونوں کے درمیان کسی قسم کی بات چیت کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ تاہم، ایک غیر طے شدہ ملاقات کے امکان کو کبھی بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ وزیراعظم شہباز شریف کے لیے ایک بڑی تشویش ہندوستانی رہنما کے ساتھ ایسی کسی بھی بات چیت کا ملک میں شدید ردعمل کا سامنے آ سکتا ہے۔ سیاسی طور پر غیر مستحکم حکومت جس کو بڑے معاشی چیلنجز کا سامنا ہے وہ اس مرحلے پر کسی بھی تنازع میں اُلجھنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے اس سال جولائی میں ایس سی او کی وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس میں اپنے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر سے ملاقات نہ کی۔ دونوں نے ایک ہی کمرے میں ہونے کے باوجود مصافحہ کرنے سے گریز کیا۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اجلاس میں فریقین نے اپنی تقریروں میں ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے گریز کیا۔ اس وقت یہ دلیل دی گئی تھی کہ جنگ اور تنازعات کی طویل تاریخ کے باوجود، بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے اقدامات اور اس کے مسلم مخالف ایجنڈے کے باوجود اس کا منقطع رہنا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔