آج کل ہمارے معاشرے، مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر مذہبی کارڈ کے استعمال کے بہت چرچے ہیں۔ تازہ ترین واقعہ مسلم لیگ ن کے وفاقی وزیر جاوید لطیف کا ہے جس میں اس نے عمران خان کے خلاف مذہبی منافرت کے کارڈ کا استعمال کیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے سٹیٹ میڈیا پی ٹی وی کو چنا گیا جسے بعد میں سوشل میڈیا پر وبا کی طرح پھیلا دیا گیا۔ اس کارِ شر میں مسلم لیگ ن کے حمایتی میڈیا ہاؤسز اور میڈیا سیل نے بھرپور حصہ لیا اور مسلم لیگی زعما بشمول مریم اورنگ زیب نے بھی بھرپور حصہ ڈالا۔ البتہ اسی مذہبی منافرت کا شکار احسن اقبال نے اس کی مذمت بھی کی کیونکہ اسی نفرت کی ایک گولی آج بھی ان کے جسم میں موجود ہے۔ اسی مذہبی منافرت کی وجہ سے انہی کی جماعت کے ایک اور وفاقی وزیر زاہد حامد کو بھی مستعفی بھی ہونا پڑا۔ سب سے بے ضرر سیاستدان پرویز رشید کو بھی اپنے حوالے سے سینیٹ میں وضاحت دینا پڑی۔ جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں مریم نواز شریف نے جاوید لطیف کے بیان کی مذمت نہ کی جس سے اس بیانیے کو مزید تقویت ملی۔ غالباً وہ بھول چکی تھیں کہ ان کے والد نواز شریف کو جامعہ نعیمیہ میں اسی مذہبی منافرت کی وجہ سے جوتا بھی پڑ چکا ہے۔ پی ٹی آئی کے زعما مختلف میڈیا پر کہہ چکے ہیں کہ عمران خان کو اس حوالے سے گزند پہنچی تو ذمہ دار مسلم لیگ ن کی قیادت، مولانا فضل الرحمان اور مخلوط حکومت ہو گی۔ پیپلز پارٹی ایک لبرل جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے لیکن اس کی اعلیٰ قیادت بھی حکومت کا حصہ ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے مذہبی منافرت کے کارڈ کے استعمال پر حاموش ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف بھی لبرل سیاستدان ہیں لیکن وہ بھی جاوید لطیف کی رو میں بہہ گئے کیونکہ برادر اکبر نواز شریف نے بھی جاوید لطیف کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کیا، حیف صد حیف۔
مذہبی کارڈ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جسے استعمال کر کے آپ سیاست یا انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل کرتے ہیں اور دوسرا وہ جس کے ذریعے آپ نفرت کا پرچار کر کے اپنے مخالفین کو جانی و مالی نقصان پہنچاتے ہیں۔ دیکھا جا رہے ہیں کہ سیاستدان اپنے مخالفین کے خلاف سیاسی مقاصد کے لیے پھر سے مذ ہبی منافرت کا کارڈ کا استعمال کر رہے ہیں۔ مذہب ہم سب کی کمزوری ہے اور ہم اس حوالے سے اتنے جذباتی ہیں کہ ہم چاہے اس کی تعلیمات پر عمل کریں یا نہ لیکن اس کے متعلق کوئی بات سننے کو تیار نہیں اور بغیر تحقیق کے قتل و غارت پر اتر آتے ہیں۔ اور اسی نفرت یا جذباتیت کو سیاستدان اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر کے بعض اوقات ان کی زندگی کے درپے ہو جاتے ہیں۔ ماضی قریب کی مثال شہباز شریف کے پنجاب کے دور حکومت میں سابق گورنر سلمان تاثیر ہے
جنہیں ان کی ہی سکیورٹی پر متعین ایک پولیس کانسٹیبل نے سرکاری رائفل سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سلمان تاثیر کے اہل خانہ نے اس کا الزا م اس وقت کی مسلم لیگ ن کی حکومت پر لگایا تھا۔ آج کل پی ٹی آئی اور سول سوسائٹی کے زعما کا الزام ہے کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے عمران خان کے خلاف مذہبی منافرت کارڈ کا استعمال کر کے عمران خان کے خلاف ایسی ہی سازش کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک سابق جج عارف اقبال بھٹی بھی اسی مذہبی جنونیت کا شکار ہوئے جب انہیں اپنے وکالت کے چیمبر میں قتل کر دیا گیا تھا۔ جنونی قاتل کا الزام تھا کہ عارف اقبال بھٹی نے بطور جج دو مسیحیوں کو توہین مذہب کے کیس میں ریلیف دیا تھا۔ اس کے علاوہ درجنوں عام مسلمانوں کو مذہبی منافرت کا کارڈ استعمال کر کے قتل کر دیا گیا لیکن آج تک ایک کیس بھی ثابت نہ ہو سکا اور ہر قتل کے پیچھے جائیداد کا تنازع، پیسوں کا لین دین یا ذاتی جھگڑے نکلے۔ مردان یونیورسٹی کے مشال خان کا خون ابھی تک ہم پر ہے۔ اس منافرت کا نشانہ ہماری اقلیتوں سے متعلق لوگ بھی بنے جس میں وہ اندوہناک واقعہ بھی شامل ہے جس میں ایک مسیحی جوڑے کو اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلا دیا گیا تھا۔ گوجرانوالہ میں ایک حافظ قرآن کو بھی خاندانی جھگڑے کی بنا پر زندہ جلا دیا گیا۔ سیالکوٹ میں سری لنکن فیکٹری منیجر پرانتھا کمارا پر بھی توہین مذہب کا الزام اور پھر اس کی اندوہناک موت تو آج بھی تازہ ہے۔ معروف شاعر محسن نقوی بھی اسی مذہبی منافرت کی بھینٹ چڑھے ضیا الحق کے بطن سے پیدائش سے آج تک مسلم لیگ ن کی مخالف سیاستدانوں کے خلاف مذہب کارڈ استعمال کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے یہ جماعت مذہبی نفرت کا اتنا پرچار کرتی ہے کہ جب بات مذہبی جنونیوں تک پہنچتی ہے تو نتیجہ قتل و غارت ہوتا ہے۔ مسلم لیگ ن واحد سیاسی جماعت ہے جس کا اتحاد ایک ایسی فرقہ
وارانہ جماعت سے ہے جس کے دامن پر مخالف فرقے کے معصومین کے ٹارگٹڈ قتل اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں سیکڑوں افراد کے قتل عام کے داغ ہیں۔ لیکن ہمارے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ آج بھی ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں اور پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے حالیہ انتخابات میں اس فرقہ پرست جماعت کے ایک ووٹ کے حصول کے لیے حمزہ شہباز سے لے کر وزیر داخلہ بھی ان کے کورنش بجا لارہے تھے۔
مسلم لیگ ن نے کے سربراہ نواز شریف نے سب سے پہلے مذہب کارڈ شہید بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کے خلاف استعمال کیا اور ان کے مسلمان ہونے پر سوال اٹھاتے ہوئے انہیں یہودیوں اور اسرائیل کا ایجنٹ قرار دیا تھا۔ آج ان کی جماعت اور ان کی اتحادی جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمان زور شور سے یہی الزامات دہرا رہے ہیں۔ نواز شریف کے سیاسی جد امجد ضیاالحق اور اس کے رفقا بھی ختم نبوت کے داعی ذوالفقار علی بھٹو پر اسی نوعیت کے الزامات لگا چکے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کھلم کھلا عمران خان کو غیر مسلموں اور قادیانیوں کا ایجنٹ کہتے ہیں۔ فرماتے ہیں ان کی جماعت جمعیت علماء اسلام کو ووٹ دینا عین اسلام ہے اور عمران خان کو ووٹ دینا ناجائز ہے۔ مریم نواز کے خاوند کیپٹن صفدر نے حال ہی میں پنڈی سیشن کورٹ کے باہر عمران خان کے خلاف قادیانیت کے حوالے سے الزامات لگائے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے سما ٹی وی کے ندیم ملک کے پروگرام میں قادیانیوں کو قریباً مسلمان ہی قرار دے دیا تھا۔ لیکن اچھی بات ہے کہ ان کے بارے میں خاموشی ہے۔ دوسری طرف ہم مسلمان اس کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ ایک فرقہ دوسرے فرقے کو مسلمان ماننے کو ہی تیار نہیں۔
ہم کہنے کو تو مسلمان ہیں لیکن ہم اپنی پہچان بطور مسلمان کے بجائے اپنے فرقے سے کرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسلام کے بنیادی پانچ نکات اور نبی کریم حضرت محمدﷺ کے آخری نبی ہونے پر ایمان لائے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا ہم پھر بھی فرقوں میں اس شدت سے بٹے ہیں کہ ہمیں فرقہ پرستی سب سے زیادہ عزیز ہے۔ اگر جسٹس منیر کمیشن انکوائری رپورٹ 1953 کو دیکھا جائے تو مسلمان کی جو تعریف کی گئی ہے وہ قابل ذکر ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ”تمام علماء کی بیان کردہ تعاریف کا جائزہ لیا جائے تو عدالت یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہے کہ اتنے بنیادی سوال تک پر کسی دو علماء میں اتفاق نہیں، ہر عالم دین کی بیان کردہ تعریف دوسروں سے مختلف ہے۔ اگر ایک عالم دین کی بیان کردہ تعریف کو عدالت تسلیم کر لے تو دوسرے مکتبہ فکر کے تمام مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں، اگر ایک مکتبہ فکر کے عالم کی تعریف کے مطابق ہم مسلمان ہیں تو دوسرے تمام علمائے دین کی تعریف کے مطابق ہم میں سے ہر ایک کافر ہے“۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب منیر انکوائری کمیشن نے علماء سے درخواست کی کہ وہ مسلمان کی کوئی مشترکہ تعریف بتائیں تو انہوں نے عدالت سے کچھ دن یا ہفتوں کی مہلت مانگی جس پر ایک فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چودہ سو سال تو دے دیئے ہیں اب کچھ ہفتوں کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن مہلت ملنے کے باوجود ”علماء“ کوئی متفقہ تعریف نہ کر سکے۔
ہم سیاستدانوں کو سیاست میں فوج اور عدلیہ کو گھسیٹنے کی بات کرتے ہیں لیکن آج تک اس بات کو نہیں اٹھایا کہ سیاست میں مذہبی منافرت سے بھی دور رہا جائے۔ ہم اپیل ہی کر سکتے ہیں ورنہ یہ آگ پھیلی تو کوئی بھی محفوظ نہ رہے گا۔
کالم کے بارے میں اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کریں۔