جمہوریت کی روح آزادی اظہار ہے جس کا ذریعہ پرنٹ والیکٹرانک میڈیا جسے ہر طاقتور حکمران دبانے کی بھرپور کوشش کرتا رہتا ہے۔ تاریخِ پاکستان کا المیہ یہ کہ جو بھی برسرِاقتدار آیا، سُدھ بُدھ گنوا بیٹھا۔ اُس کے دماغ کا خنّاس اُسے آمریت کی راہوں پر اتنی دور لے جاتا ہے جہاں سے مراجعت ناممکن اور یہیں سے اُس کے انجام کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ ایسے واقعات سے اَٹی ہوئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کسی ادارے یا محکمے کو پَرکاہ برابر حیثیت نہیں دیتے تھے۔ 1970ء کے انتخابات میں مَن مانی کے بعد اُن کا زوال شروع ہوااور انجام عبرت ناک۔ آج بھٹو کی پیپلزپارٹی سُکڑ سمٹ کر سندھ تک محدود ہو گئی۔ میاں نوازشریف کو بھی اداروں اور محکموں سے تصادم کا بہت شوق ہے۔ اِسی تصادم کے ہاتھوں وہ جلاوطن ہوئے، جیلیں کاٹیں اور اب لندن میں بیٹھے بھلے وقتوں کے انتظار میں ہیں۔ وہ تین بار ایٹمی پاکستان کے وزیرِاعظم منتخب ہوئے لیکن کسی ایک بار بھی اپنی ٹَرم پوری نہ کر سکے۔ آصف زرداری کے بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ وہ صلح جُو ہیں لیکن اِس بلوچ سردارکے اندر جب اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا شوق پیدا ہوا تو اُسے بھی ملک سے ”کھِسکنا“ پڑا۔ آج کل وہ چُپ کا روزہ رکھے کسی گوشہئ عافیت میں ہیں۔ پتہ نہیں چُپ کایہ روزہ کب ٹوٹتا ہے۔
اب آئیے ”تبدیلی“ کے بانی وزیرِاعظم عمران خاں کی طرف جنہیں پہلے دن سے ہی یہ شوق ہے کہ ”گلیاں ہو جان سونجیاں وِچ مرزا یار پھرے“۔ اُنہیں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بِن سلیمان کی طرح ہمہ مقتدر بننے کا شوق مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ سعودی عرب میں بادشاہت ہے، جمہوریت نہیں۔ شاید اِسی غلط فہمی کی وجہ سے حکمرانوں کا اداروں سے تصادم کا یہ سفر اعلیٰ ترین عدلیہ کے جج کے ساتھ مخاصمت سے شروع ہوا۔ پھر الیکشن کمیشن سے تصادم اور اب میڈیا کی زباں بندی کی کوششیں۔ حکومتوں کی ہمیشہ یہی ترجیح ہوتی ہے کہ فریقین کو ایک پیج پر لائیں لیکن ہمارے وزیرِاعظم تو اپوزیشن سے ہاتھ تک ملانا بھی پسند نہیں کرتے۔ تحریکِ انصاف کے منشور نے آزادیئ اظہار اور آزاد میڈیا کی ضمانت دے رکھی ہے لیکن آج اُسی میڈیا کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس نے خاں صاحب کو آسمان کی رفعتوں تک پہنچایا۔ خاں صاحب کے نزدیک سوائے ”زورآوروں“ کے وہی ادارہ بہتر جو اُن کا غلامِ بے دام ہو۔ اِسے نرگسیت کہتے ہیں یعنی انتہائے خودپسندی۔ بدقسمتی سے وزیرِاعظم کے گرد گھیرا ڈالنے والے بھی صرف ہاں میں ہاں ملانے اور مدح سرائی میں زمین آسمان کے قلابے ملانے والے۔ تحریکِ انصاف ہی کے ایک رُکن جو ما شاء اللہ صدرِ مملکت بھی ہیں، نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے
خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”دنیا عمران خاں کے سیاسی تدبر پر اُن کی شاگردی اور مریدی اختیار کر لے“۔ صدرِ مملکت عارف علوی یہ اُس وقت فرما رہے تھے جب متحدہ اپوزیشن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے واک آؤٹ کر رہی تھی، میڈیا پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دیئے بیٹھا تھا اور پارلیمنٹ کی پریس گیلری کو تالے لگے ہوئے تھے۔ دراصل ایوانِ صدرکی دیواریں اتنی اونچی ہیں کہ صدرِمملکت کو نہ تو مہنگائی کے مارے عوام کے نوحے سنائی دیتے ہیں نہ اپوزیشن کا احتجاج اور نہ ہی میڈیا کی آواز۔ اُنہیں تو بس آرڈیننسز جاری کرنے کا شوق ہے جسے وہ بطریقِ احسن نبھا رہے ہیں۔
لاریب ہر حکومت نے آزادیئ اظہار پر پابندی کی کوشش کی ہے۔ ایوب خاں نے پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس جاری کرکے جمہوری کلچر کا گلا گھونٹا۔ یحییٰ خاں بھی ایوب کے نقشِ قدم پر چلتا رہا۔ ضیاء الحق نے صحافیوں کو نہ صرف قیدوبند کی صعوبتوں سے روشناس کرایا بلکہ سرِعام کوڑے بھی مارے لیکن اِس کے باوجود صحافی برادری ڈَٹ کر کھڑی رہی۔ اِسی صحافی برادری سے ایک فاش غلطی بھی بتاتے چلیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جو عمران خاں کے جلسوں کی گھنٹوں بلکہ پہروں لائیو کوریج کرتے رہتے تھے۔ ہر چینل کا کیمرہ خاں صاحب کے لیے مخصوص اور ہر اخباری رپورٹر کپتان کے پیچھے خبر کی تلاش میں۔ تحریکِ انصاف کی حمایت میں قوم کی ذہنی آبیاری جتنی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے کی، اُتنی کسی دوسرے لیڈر کے حصّے میں آئی نہ آسکتی ہے۔ اب صورتِ حال کچھ یوں کہ
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
یہ ”عوام دوست“ حکومت جس کا نعرہ آزاد میڈیا تھا آج اُسی میڈیا کو دبانے کا ہر حربہ استعمال کرنے کی تگ ودَو میں ہے۔ اِس مقصد کے لیے فوادچودھری کو اطلاعات ونشریات کی وزارت دوبارہ سونپ دی گئی۔ فوادچودھری نے بَرملا اعتراف کیاکہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کسی جرنیل کا نہیں، اُس کا اپنا آئیڈیا ہے حالانکہ اِس سے پہلے وہ اشاروں کنائیوں میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ پی ایم ڈی اے کو راولپنڈی کی اشیرباد حاصل ہے۔ فوادچودھری نے یہ بھی کہا کہ اِس بِل کا مقصد ”فیک نیوز“ پر کنٹرول کرناہے۔ آمدہ اطلاعات کے مطابق مجوزہ بِل میں لکھا گیا ہے ”کوئی بھی ایسی نشریات، ڈسٹری بیوشن یا آن لائن کوئی بھی ایسی چیز ممنوع ہو گی جس کے بارے میں پتہ ہو کہ وہ جھوٹ پر مبنی یا بے بنیاد ہے یا بَدنیتی پر مبنی ہے یا اِس کے جھوٹ، بے بنیاداور بدنیتی پر مبنی ہونے کا یقین کرنے کے لیے کافی وجوہات موجود ہوں“۔ مجوزہ بِل میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ جرم ثابت ہونے کی صورت میں 5 سال قید یا 5 کروڑ روپے جرمانا یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ حقیقت مگر یہ کہ تقریباََ ہر فیک نیوز کا ”کھُرا“ تو تحریکِ انصاف کے گھرتک ہی پہنچتا ہے۔ 2013ء میں کنٹینر پر کھڑے عمران خاں ثبوتوں کے پلندے لہرا لہرا کر لوگوں کو قائل کرتے رہے لیکن وقت آنے پر ثابت ہوا کہ وہ سب ردی کے ٹکڑے تھے کیونکہ اعلیٰ عدلیہ میں وہ کچھ بھی ثابت نہ کر سکے۔ فوادچودھری کی تازہ ترین ”واردات“ یہ کہ اُس نے کہا، پی ایم ڈی اے پر تمام صحافی تنظیمیں اور پریس کلبز اُس کے حامی ہیں اور صرف 12 افراد اِس میڈیا اتھارٹی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ فواد چودھری کی اِس فیک نیوز کا بھانڈا اُس وقت پھوٹا جب پورے پاکستان کی تمام صحافی تنظیمیں اور پریس کلبز پی ایم ڈی اے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ حقیقت یہ کہ پی ایف یو جے، پی بی اے، اے پی این ایس، سی پی این ای، حزبِ اختلاف، وکلاء اور انسانی حقوق کی تنظیمیں پی ایم ڈی اے کو مسترد کر چکی ہیں اور صحافی برادری اسے میڈیا مارشل لاء کا نام دے رہی ہے۔ اِس بِل کے حق میں سوائے حکومتی حلقوں کے کوئی بھی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ یہی وجہ ہے کہ اب حکومت بھی اِس بِل پر دوبارہ غور کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ پی ایم ڈی اے کی میڈیاحمایت کے بارے میں فواد چودھری کی فیک نیوز پر اُسے کتنے سال قید اور کتنے کروڑ جرمانا ہوگا کیونکہ یہ اُسی کا تجویز کردہ بِل ہے جس کے مطابق خلاف ورزی ثابت ہونے پر 5 سال قید یا 5 کروڑ روپے جرمانا یا دونوں سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔
یوں تو اِس بِل میں اور بھی بہت کچھ ہے جس کی تفصیل اِس مختصر سے کالم میں بیان نہیں کی جاسکتی لیکن مجوزہ بِل کے مطالعے سے بہرحال یہ عیاں ضرور ہو جاتا ہے کہ یہ بل ”میڈیا مارشل لاء“ بلکہ اُس سے بھی آگے کی کوئی چیز ہے کیونکہ مارشلائی ادوار میں میڈیا پر اتنی پابندیاں نہیں لگائی گئیں جتنی اِس ”جمہوری دَور“ میں لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ طُرفہ تماشا یہ کہ حکومت عدالت بھی اپنی مرضی کی قائم کرے گی۔ سوال یہ کہ ”بَد نیتی“ کا فیصلہ کیوں کر ممکن ہوگا جبکہ حکمرانوں کے نزدیک جو خبر بَدنیتی پر مبنی ہوگی، وہی خبر اپوزیشن کے ہاں ”خوش نیتی“ کہلائے گی۔ بہرحال ہم تو حکمرانوں کو یہی عرض کر سکتے ہیں کہ تاریخ سے سبق حاصل کریں کیونکہ تاریخ یہی ثابت کرتی ہے کہ جس حکومت نے بھی بیک وقت کئی محاذ کھولے، اُس کا انجام بخیر نہ ہوا۔حقیقت مگر یہ کہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا۔