اسلام آباد: اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔
آج کی سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نیب اکرم قریشی نے اپنے دلائل مکمل کیے تو نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے مختصر جوابی دلائل دیے جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا۔
تین بجتے ہی جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو احتساب عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی سزائیں معطل کردیں اور انہیں رہا کرنے کا بھی حکم جاری کیا۔
عدالت کی جانب سے نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی اپیلوں کے فیصلے تک سزائیں معطل کی گئیں جب کہ عدالت نے تینوں شخصیات کو 5،5 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا بھی حکم دیا۔
نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے حتمی دلائل شروع کردیے، گزشتہ روز سماعت کے دوران عدالت نے قرار دیا تھا کہ اگر نیب پراسیکیوٹر نے آج دلائل مکمل نہ بھی کیے تو سزا معطلی کی درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔
نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس میں مخصوص حالات یہ ہیں کہ انہوں نے گلف اسٹیل ملز 1978 میں فروخت کی، مجرمان کے مطابق طارق شفیع اور عبداللہ قائد آہلی کے درمیان فروخت کا معاہدہ ہوا اور یہ موقف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں میں اپنایا گیا تھا۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا مجرمان کہتے ہیں کہ 1980 میں مزید 25 فیصد شیئرز فروخت ہوئے اور فروخت سے حاصل 12 ملین درہم قطری شہزادے کے پاس سرمایہ کاری میں استعمال ہوئے اور اسی سے ایون فیلڈ پراپرٹیز خریدی۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا مجرمان کے مطابق لندن فلیٹس کی خریداری کے لیے رقم کی بنیاد یہی 12 ملین درہم ہیں اور تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ فروخت کا معاہدہ جعلی ہے اور ایسا کوئی ریکارڈ دبئی کے ریکارڈ میں موجود ہی نہیں ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ دبئی کی حکومت نے بتایا 25 فیصد شیئرز کی فروخت کا معاہدہ ان کے پاس نہیں ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے دلائل کے دوران کہا کہ مریم نواز کی طرف سے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست کے ذریعے ایک موقف لیا گیا اور انہوں نے سپریم کورٹ میں سی ایم اے نمبر 7531کے ذریعے دستاویزات جمع کرائیں جس میں قطری خاندان سے کاروباری معاملات کا ذکر کیا گیا۔
اکرم قریشی نے کہا ہمارے پاس بھی یہی موقف اپنایا گیا کہ لندن فلیٹس کی رقم گلف اسٹیل ملز سے آئی جس پر جسٹس گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا ہمارے پاس کا کیا مطلب، مجرمان تو پیش ہی نہیں ہوئے۔
نیب پراسیکیوٹر نے اس پر کہا، جے آئی ٹی میں مجرموں کا یہ موقف تھا جس پر جسٹس گل حسن نے کہا آپ جے آئی ٹی نہیں ہیں، جے آئی ٹی اور نیب میں بہت فرق ہے۔
نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے کہا مریم نواز کی ملکیت چھپانے کے لیے جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بنائی گئی جس پر جسٹس گل حسن نے سوال کیا آپ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے مریم کے نام پر فلیٹس بنائے جس پر انہوں نے جواب دیا جی، نواز شریف فلیٹس کے اصل مالک تھے۔
جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے نیب پراسیکیوٹر کو کہا تو پھر نواز شریف کی ملکیت کا کوئی ثبوت بتا دیں، ہم کیسے فرض کریں، آپ کی اتنی بڑی تفتیش کے بعد نواز شریف کا فلیٹس سے تعلق نہیں بن پا رہا، نواز شریف تو کہیں بھی نظر نہیں آرہا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا 'آپ تفتیش سے نواز شریف کا تعلق نہیں جوڑ سکے تو ہم فرض کیسے کرلیں'۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا '2012 تک مریم نواز ان فلیٹس کی بینفشل اونر تھی اور بعد میں ایک جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بنا کر ٹرسٹی بنیں، اس ٹرسٹ ڈیڈ میں کیلیبری فونٹ کا استعمال ہوا جو ان دنوں دستیاب ہی نہیں تھا اور ٹرسٹ ڈیڈ میں تاریخیں بھی بدلی گئیں۔
اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن نے سوال کیا فرض کریں مریم نے جعلی دستاویزات پیش کیں، یہ بتائیں ذرائع سے زیادہ آمدن پر سزا کیسے ہوسکتی ہے۔
اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کبھی ادھر سے بھی کوئی سوال پوچھ لیں، سب سوالات مجھ سے ہی پوچھنے ہیں جس پر عدالت نے کہا دلائل آپ کے ہیں اور سوال بھی آپ سے ہوگا۔
عدالت نے پوچھا 1993 میں مریم نواز کی عمر کیا تھا جس پر اکرم قریشی نے بتایا اس وقت مریم نواز 20 سال کی تھیں۔
عدالت نے سوال کیا 'آپ کا موقف ہے کہ 1993 میں نواز شریف نے لندن فلیٹس خریدے تو مریم نواز پر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس کیسے بن گیا، آپ کا کیس ہے کہ مالک مریم نواز نہیں بلکہ نواز شریف ہیں۔
جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا، 'جی میں یہی کہہ رہا ہوں مالک مریم نواز نہیں بلکہ نواز شریف ہیں، یہ میں نہیں کہتا یہ قانون کہتا ہے کہ آپ فرض کریں۔
عدالت نے سوال کیا آپ یہ کہتے ہیں ان بچوں کے دادا کا وہاں کوئی کاروبار نہیں تھا جس پر اکرم قریشی نے کہا یہ ان کا موقف ہے کہ طارق شفیع ان کے دادا کا کاروبار سنبھال رہے تھے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کوئی ایسا ریکارڈر دیں جو نواز شریف کا کسی بھی حثیت میں کردار ثابت کرتا ہو، کیا صرف مفروضے کی بنیاد پر سزا ہوسکتی ہے جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا قانون شہادت تو ایسا کرنے کا کہتا ہے، میں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی بتایا ہے جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا وہ منارٹی ججمنٹ ہے۔
اکرم قریشی نے کہا قانون شہادت کے اصول عام مقدمات میں مختلف جبکہ اس کیس میں مختلف ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سپریم کورٹ کے طے کردہ اصول کے مطابق نیب کو تفصیلی تفتیش کرنی تھی، ان کے معلوم ذرائع آمدن کہاں پر تفتیش کیے، وہ دستاویزات کون سی ہیں جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا سپریم کورٹ کا لاء یہاں قابل عمل نہیں ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ 'کیا سپریم کورٹ کا لاء قابل عمل نہیں ہے، معلوم ذرائع آمدن کا چارٹ کہاں پر ہے، کیا میں یہ لکھ دوں کہ اس کیس میں سپریم کورٹ لاء کا اطلاق نہیں ہوتا جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا جی لکھ دیں اس کیس میں سپریم کورٹ لاء کا اطلاق نہیں ہوتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا پیش کردہ ذرائع آمدن کا چارٹ غیر متعلقہ ہے، نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا، جی ہاں پیش کردہ ذرائع آمدن کا چارٹ غیر متعلقہ ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا آپ کہتے ہیں جائیدادیں بیرون ملک ہیں، اس لیے بار ثبوت نیب پر نہیں آتا جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا جی بالکل ایسا ہی ہے، بار ثبوت نیب پر نہیں آتا۔
فاضل جج نے سوال کیا 'اس طرح کی ایکسرسائز کسی عوامی عہدیدار کے کیس میں کی گئی؟ ہم صدور اور وزراء اعظم سے متعلق پوچھ رہے ہیں' جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا حاکم علی زرداری اور احمد ریاض شیخ کے مقدمات میں ایسا ہی کیا گیا اور دونوں کے مقدمات میں بار ثبوت ملزمان پر تھا۔
نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے اپنے دلائل مکمل کیے جس کے بعد ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ نے مختصر دلائل کی استدعا کی اور کہا کہ مریم نواز کی پیش کردہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی قرار دی گئی جو کہیں رجسٹرڈ نہیں ہے اور یہ ٹرسٹ ڈیڈ انہوں نے خود پیش کی جب کہ جے آئی ٹی کو خاص کردار دیا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سے سوال کیا آپ اکرم قریشی کی حمایت کرتے ہیں کہ یہ فرسٹ امپریشن کا کیس ہے، اس میں رائج اصولوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔
جس پر جہانزیب بھروانہ نے کہا جی یہ فرسٹ امپریشن کا کیس ہے جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا معلوم ذرائع آمدن کا چارٹ کس نے تیار کیا تھا، اسے بنانے والا کہاں پر ہے، اگر وہ آتا تو اس پر جرح ہوتی کہ کیسے بنایا گیا۔
جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا اس کیس میں اتنی جلدی کیا ہے، یہ کیس نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کے ذریعے لڑا جارہا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا مریم نواز کی معاونت تو تب ہوتی جب جائیداد خریداری میں کوئی کردار ہوتا جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا جائیداد کی قیمت لازمی شرائط نہیں، فلیٹس موجود ہیں، پرتعیش لائف اسٹائل سامنے ہے اور میڈیا انٹرویوز بھی موجود ہیں۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر ایک کے جج محمد بشیر نے رواں برس 6 جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو مجموعی طور پر 11 سال قید اور جرمانے، مریم نواز کو مجموعی طور پر 8 سال قید اور جرمانے اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔
جس کے بعد کیپٹن (ر) صفدر کو نیب نے گرفتار کرلیا، جبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے 13 جولائی کو لندن سے واپس پاکستان آکر گرفتاری دے دی۔ بعدازاں تینوں نے سزاؤں کے خلاف 16 جولائی کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔