ماسکو:امریکا اور روس نے سرد جنگ کے دوران ایک دوسرے کے خلاف ہتھیاروں کے انبار لگا دئیے تھے ہر وقت ایٹمی جنگ کا خطرہ سر پہ منڈلاتا رہتا،سرد جنگ کے عروج پر اپنی حاضر دماغی سے امریکہ اور روس کے درمیان جوہری جنگ شروع ہونے سے روکنے والے، سویت یونین کے سابق فوجی افسر سٹانسلاو پیٹروف 77 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
خبروں کے مطابق سٹانسلاو پیٹروف مئی میں انتقال کر گئے تھے لیکن اس بات کو عوام کے سامنے ابھی لایا گیا ہے۔جوہری حملے میں کیسے بچا جا سکتا ہےسویت یونین کے سٹانسلاو پیٹروف سنہ 1983 میں روس کی ایک جوہری تنصیب پر متعین تھے جب وہاں پر کمپیوٹر نے الارم پر وارننگ دی کہ امریکہ نے روس کی جانب میزائل داغے ہیں۔سٹانسلاو پیٹروف نے اندازہ لگایا کہ یہ الارم غلطی سے بجے ہیں اور انھوں نے اپنے حکام تک یہ بات نہیں پہنچائی۔
سٹانسلاو پیٹروف کا یہ عمل سالوں بعد منظر عام پر سامنے آیا جس سے یہ پتہ چلا کہ ان کہ اس فعل سے ایک ممکنہ جوہری جنگ چھڑنے سے بچ گئی۔سرد جنگ کے دوران روس اور امریکہ نے ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کے لیے بہت سے جوہری ہتھیار تیار رکھے ہوئے تھے.
سال 2013 میں بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سٹانسلاو پیٹروف نے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ 26 ستمبر 1983 کی صبح وہ دفتر میں کام کر رہے تھے جب انھیں کمپیوٹر سے سگنل ملے جن سے بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ امریکہ نے میزائل داغے ہیں۔
'میرے پاس وہ تمام معلومات تھیں جن سے یقینی طور پر یہ ظاہر ہوتا تھا کہ میزائل حملہ ہوا ہے۔ اگر میں ان کو اپنے حکام تک پہنچا دیتا تو کوئی مجھے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ مجھے صرف اپنا فون اٹھانے کی دیر تھی تاکہ میں اپنے کمانڈروں سے بات کر سکوں لیکن میں اپنی جگہ سے ہل نہیں سکا۔اپنی فوجی تربیت کے برعکس، سٹانسلاو پیٹروف نے اعلی فوجی حکام کے بجائے آرمی ہیڈ کوارٹر میں اس وقت موجود ڈیوٹی افسر کو فون کر کے مطلع کیا کہ ان کے سسٹم میں کچھ خرابی ہے۔
بعد میں ہونے والی تفتیش سے معلوم ہوا کہ روسی سیٹیلائٹ نے بادلوں پر منعکس ہوتی ہوئی سورج کی شعاوں کو جوہری میزائل سمجھ لیا تھا۔
سٹانسلاو پیٹروف کی کہانی کو سب سے پہلے دنیا کے سامنے پیش کرنے والے جرمنی کے فلم ساز کارل شوماکر نے اس ماہ کے اوائل میں انھیں سالگرہ کی مبارک باد دینے کے لیے فون کیا تھا تو سٹانسلاو پیٹروف کے بیٹے دمتری پیٹروف نے بتایا کہ ان کے والد کی وفات ہو چکی ہے۔