جمہوریت کے نعرے لگاتی سیاسی جماعتیں آج کل جو کھیل کھیلتی دکھائی دیتی ہیں. اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملک اور عوام کی فلاح کے نعرے بس نعرے ہی ہیں, اتوار کے روز ہونے والے ضمنی الیکشن کی بات کی جائے تو سات نشستوں پر عمران خان خود کھڑے ہوئے چھ میں کامیابی سمیٹی لیکن سوال یہاں یہ پیداہوتا کہ ان چھ میں سے کسی ایک نشست کا انتخاب کرنا ہو گا تو باقی بچ جانے والی سیٹوں پر کیا الکیشن دوبارہ کروائے جائیں یا پھر عمران خان کسی بھی نشست سے حلف نہیں لیں گے۔
لیکن اس تمام تر صورت حال میں ملکی وسائل استعمال ہوئے اور عوام کا قیمتی وقت بھی لگا مگر سب کیا بے نتیجہ ہی جائے گا؟ ایک عام شہری کے ذہن میں یہ سوال اْٹھ رہا ہے تو قوانین بنانے والے کونسی بے فکری کی نیند سوئے ملک میں جاری اس بندر تماشے پر کوئی قانون سازی نہیں کر رہے۔دوسری جانب بات کر لی جائے حکومت کی اور حکومتی اتحاد کی تو مہنگائی اور بے روزگاری بیانیہ بنا کر حکومت میں آ تو گئے مگر آئے روز تیل کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں اور عوام مہنگائی کی چکی میں دن رات پستے چلے جا رہے ہیں۔
حکومت میں موجود سیاسی رہنما اگر دیکھا جائے تو عوامی مسائل نہیں ذاتی کیسزاور فائدوں کے پچھے بھاگتے نظر آتے ہیں۔سیلاب متاثرین بے یارومددگار دن رات امداد کے منتظر ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں۔ کراچی جیسے شہر میں جرائم دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اور الزام کراچی والوں پر ہی کہ وہ خود ذمہ دار ہیں اپنے مسائل کے۔
کیا ڈالر مہنگا اور روپے کی بے قدری میں اس ملک کی عوام کا ہاتھ ہے؟
کیا بھوک اے بلکتے بچوں کو کھولے آسمان تلے سسکتے ہوئے مخلتف بیماریوں میں مبتلا ہوتے دیکھنا اس ملک کی عوام کامقدر ہے؟
کیا ایک موبائل فون کے عوض زندگی کی بازی ہار جانے میں اس ملک کی عوام کا قصور ہے؟
اس ملک میں انصاف کے لئے رلتے نسلیں گزر جاتی ہیں اس میں بھی کیا عوام کا قصور ہے؟
یہ وہ سوال ہیں جن کاجواب کسی سیاسی جماعت کے نمائندوں کہ پاس نہیں ہے اور نعرے لگائے جاتے ہیں جمہوریت کے اور عوامی فلاح کہ, ہمارے ملک کا سیاسی نظام جس ڈگر پر چل نکلا ہے اس ملک کو عالمی دنیا میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی مثال امریکی صدر کابیان ہے جس میں پاکستان کے جوہری نظام پر بات کی گئی اور پاکستان جیسے پْر امن ملک کو خطرہ قرار دے دیا گیا۔
وہ کہتے ہیں ناں گھر کو خطرہ باہر سے نہیں گھر میں موجود لوگوں سے ہی ہے۔ جب تک اس ملک کے سیاست دان ذاتی مفاد کی ڈگڈگی پر ناچتے رہیں گے تب تک ملک و قوم اور اس کی سالمیت کو خطرہ رہے گا۔
کرسی کی جس دوڑ میں یہ سیاست دان سب کچھ روندتے ہوئے جس تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں انہیں اس بات کا ادراک نا جانے کب ہو گا کہ جس کرسی کے لئے یہ سب قربان کر رہے ہیں اْس کرسی کا وقار اور استحکام سب سے ضروری ہے۔
جہاں قصور ان سیاست دانوں کا ہے وہیں قصور اس ملک میں بسنے والے عوام کا بھی ہے کہ جو آنکھیں اور کان بندکیے بس اپنے اپنے سیاسی لیڈان کو فالو کرتے ہیں۔ شعور کی آنکھ سے دیکھا جائے تو ملک میں موجود سیاسی کارکنان بھی اپنے قائد کے ہر بیانیے کو اس طرح سپورٹ کرتے دیکھائی دیتے ہیں جیسے فرض کر دیا گیا ہو۔
انتخابات کی چیخ و پْکار کرتے سیاست دان جب عوام کے دکھوں کی بات کرتے ہیبں اور کہتے ہیں کہ وہ تو اس لئے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں کیوں کہ عام عوام پِس رہے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ اس ملک کی غریب عوام کا مذاق اْڑا رہے ہیں اور عوام ہے کہ ان کے جھانسے میں آنے کو جیسے تیار بیٹھے ہیں۔
بہت سے ملکوں میں انقلاب عوام میں شعور کے بیدار ہونے پر آیا پاکستانی عوام بھی کسی سے کم نہیں مگر یہاں فقدان ہی تو شعور کا اور سوچ کا۔
دو ہزار اور ایک پلیٹ بریانی پہ جب ووٹ خرید لئے جائیں گے تو وہاں عوامی مسائل کم نہیں بلکہ بڑھتے جائیں گے۔ وہاں عوام نہیں سیاست دان ہی ترقی کرتے دکھائی دیں گے۔اپنے حق کے لئے جب تک آواز نہیں اْٹھائیں گے نہ تو اس ملک کے حالات بہتر ہوں گے اور نہ ہی اس میں بسنے والی عوام کے وہ مسائل جو خاندانی نظام کو تباہ کر رہے ہیں حل ہوں گے۔ ساتھ ہی ساتھ آنے والی نسلوں کو بھی مزید مشکل میں ڈال رہے ہیں۔ خدارا سوچیں کیوں کہ اپنے لئے آواز خود ہی اٹھانا پڑے گی ورنہ مزید پستے چلے جائیں گے۔