اتوار کے روز قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے، عمران خان سات نشستوں سے کھڑے ہوئے اور چھ پر جیت گئے، پیپلزپارٹی نے دو سیٹوں پر مقابلہ کیا اور سو فیصد رزلٹ حاصل کیا یعنی کراچی میں عمران خان کو شکست دی اور ملتان میں شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہربانو کو یوسف رضا گیلانی کے کامریڈ بیٹے علی موسی گیلانی نے ہرایا۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں میں سب سے بری کارکردگی نواز لیگ کی رہی۔ یہ نہ صرف پی ٹی آئی سے کوئی نشست چھیننے میں ناکام رہی بلکہ اپنی صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں گنوا بیٹھی۔ مجموعی نتائج کو دیکھا جائے توعمران خان کے جیتنے کے باوجود پی ٹی آئی کو سیاسی اور پارلیمانی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی کے گیارہ نشستوں سے استعفے منظور ہوئے تھے اور الیکشن میں چھ سیٹیں تو خود عمران خان نے جیتیں جو انہیں تیس روز کے اندر اندر خالی کرنا ہوں گی۔ دو مخصوص نشستوں کے علاوہ دو سیٹوں کا ہارنے سے سیدھا سادا نقصان ہو گیا۔ اب عملی صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے پارلیمنٹ میں اپنی دس سیٹیں کم کر لی ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے عمران خان نے ایم کیو ایم اور باپ سمیت دیگر سابق اتحادیوں سے رابطے کے لئے ایک کمیٹی بنائی تھی مگر اب موجودہ صورتحال میں وہ بھی ساتھ مل جائیں تو عمران خان حکومت نہیں بنا سکتے۔
کوئی آئینی، جمہوری اور سیاسی سوچ رکھنے والا اس عمل کی حمایت نہیں کر سکتا کہ نرگسیت کا مارا کوئی سیاسی رہنما اپنی پوری پارٹی کو کچرا سمجھتے ہوئے خود ہی تمام سیٹوں سے کھڑا ہوجائے۔ بیرسٹر محمد عبداللہ بتا رہے تھے کہ عمران خان پر آئینی طور پر کوئی پابندی نہیں تھی کہ وہ جتنی سیٹوں سے الیکشن لڑنا چاہیں وہ لڑ سکتے تھے اور میرا کہنا تھا کہ ہر سیاسی معاشرہ اپنی غلطیوں اور ناکامیوں سے سیکھتا ہے، پاکستان کے آئینی، جمہوری اور سیاسی دماغوں کو بھی اس پر غور کرنا چاہئے کہ عوام کے اربوں روپے محض ایک سیاسی رہنما کی خود پسندی پر ضائع نہیں کئے جا سکتے۔ اگر کوئی ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑنا چاہتا ہے تو اس میں الیکشن کمیشن کا کیا قصور ہے کہ وہ بار بار انتظامات کرتا پھرے اور ان باقی تمام امیدواروں کا کیا قصور ہے کہ وہ کسی دوسرے کی خواہشات کے لیے اپنی انتخابی مہم کی محنت اور اخراجات باربار کرتے پھریں، ہاں، اگر کوئی بڑا لیڈر یہ سمجھتا ہے کہ قوم کی رہنمائی کے لئے اس کا پارلیمنٹ میں ہونا اشد ضروری ہے اور وہ دو حلقوں سے الیکشن لڑنا چاہتا ہے تووہ جیتنے کے بعد دوسرے حلقے کے انتخابی اخراجات جمع کروائے تب ہی اس کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری ہو۔ اگر کوئی شخص کسی ایوان کا پہلے سے رکن ہے تواس پر اسی پارلیمانی مدت کے دوران دوبارہ امیدوار ہونے پر پابندی ہونی چاہئے اوراگر کوئی اپنا حلقہ تبدیل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے کاغذات کے ساتھ استعفے کی منظوری کا حکم نامہ بھی جمع کروائے۔ عمران خان اپنی حرکت سے مجھے وہ شخص لگ رہے ہیں جو اپنی ہی بیوی سے شہر، شہر جا کے الگ الگ نکاح کر لے۔
خیر، عمران خان نے جو کیا سو کیا مگر نواز لیگ نے کیا کیا، اس پر بھی بات ہونی چاہئے۔ اس پارٹی کے سیکرٹری جنرل کہتے ہیں کہ ان کی توجہ سیلاب کی طرف تھی لہذا وہ ضمنی الیکشن ہار گئے۔یہ عجیب وغریب قسم کی دلیل ہے یعنی جب وہ وزارت میں مصروف ہوتے ہیں تو کیا اپنا بزنس اور اپنے ذاتی کام بھول جاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ نواز لیگ اس وقت خود نواز لیگ کے مقابلے میں ہے۔ نواز شریف ابھی تک لندن میں ناراض بیٹھے ہیں اور تلخ حقیقت ہے کہ وہ شہباز شریف کی حکومت کو ناکام دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس سے پہلے اسٹیبلشمنٹ پر ثابت کیاہے کہ ان کی پارٹی کے بغیر ملک نہیں چلایا جا سکتا اور اب وہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ ان کے بغیر ان کی پارٹی بھی نہیں چل سکتی۔ابھی جاتی امرا کے ماڈل ٹاون پر حملے جاری ہیں۔ جاتی امرا کے مجاہدین پلٹ پلٹ کے وار کر رہے ہیں کہ چاچو کو وزارت عظمیٰ لینے کا بہت شوق تھا، کیا یہ شوق پورا ہو گیا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی سے زیادہ حکومت کے خلاف خود مریم نواز اور ان کے فدائی سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ متحرک ہیں۔ ان سے لاکھ کہا جائے کہ اگر شہباز شریف حکومت نہ سنبھالتے تو ملک دیوالیہ ہوجاتا، مریم نواز جو اس وقت لندن میں ہیں شہباز شریف کے ساتھ جیل کی کسی کوٹھڑی میں ہوتیں، ملک کی اہم ترین تقرریوں پر عمران خان بطور وزیراعظم اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز لیگ کے لئے اقتدار کے دروازے بند اور جیلوں کے کھول چکے ہوتے۔ یہ کارکن وہی زبان بول رہے ہیں جس کی گائیڈ لائنز انہیں لندن سے آ رہی ہیں، جاتی امرا سے مل رہی ہیں۔ ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ شہباز شریف کے حکومتی قلعے کے دروازے اور فصیلیں اندر سے کھوکھلی کی جار ہی ہیں۔
یہ پنجاب کی بیس نشستوں کے بعد اگلا مرحلہ تھا جس میں ڈیمج کنٹرول کرنا تھا مگر مریم نواز کو عین اسی موقعے پر پاسپورٹ ملا۔ انہوں نے ایک ہفتہ بھی انتظار نہیں کیا اور یوں لندن گئیں جیسے کسی جیل میں رہ رہی ہوں۔ سوال ہوا، آپ پہلے کہتے تھے کہ مریم نوازکی کمپین کی وجہ سے نواز لیگ ہار جاتی ہے اور اب آپ مریم نواز کی کمپین میں ضرورت بیان کر رہے ہیں تو میرے جواب میں کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ پہلے مریم نواز کے بیانئیے کی وجہ سے ری ایکشن آتا تھا اور اب انہوں نے اپنی پارٹی کی حکومت (اور ریاست) کے حق میں نکلنا تھا مگر وہ اس موقعے پر لندن چلی گئیں۔ خاندان کے اس جھگڑے میں حمزہ شہباز کا کردار بھی عجیب وغریب ہے۔ وہ جب سے وزیر اعلیٰ کی کرسی سے ہٹے ہیں پارٹی کے لوگوں کے مطابق بستر سے لگ گئے ہیں۔ انہیں کہنا ہے کہ بھائی ایسا بھی کیا صدمہ، ہمت کرو، جوان آدمی ہو، ابھی زندگی پڑی ہے، باہر میدان میں نکلو، مقابلہ کرو۔ مجھے مشورہ دینے میں عار نہیں کہ سیاست میں محنت، کمٹ منٹ اور جدت سیکھنی ہے تو عمران خان سے سیکھو۔ میں نے عمران خان کو بے پناہ محنت کرتے دیکھا، کوئی دن ایسا نہیں رہا جب ان کا جلسہ یا پریس کانفرنس جیسی کوئی ایکٹیویٹی نہ ہویا کسی نہ کسی ٹی وی پروگرام میں بیٹھے مخالفین کی ایسی تیسی نہ کررہے ہوں جبکہ شریف فیملی کی چھٹیاں ہی ختم نہیں ہوتیں،ہاں، شریف فیملی کے بارے نوے کی دہائی میں کہا جاتا رہا، پرویز مشرف کے مارشل لا پر بھی تجزیہ نگاروں نے شور مچائے رکھا کہ یہ خاندان ماضی کا قصہ بن گیا مگر نواز شریف نے کم بیک کیا۔جواب یہ ہے کہ ماضی میں انہیں مارشل لا کی پراکسیاں ختم کرنا چاہتی تھیں مگر اس مرتبہ انہیں ایک ایسی ایگریسو پولیٹیکل فورس ری پلیس کر رہی ہے جو اپنے اندر بے پناہ پوٹینشل رکھتی ہے۔ سو مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپنے ہی دانتوں سے اپنے ہی ہاتھوں کو کاٹنا، نوچنا،بھنبھوڑنا بند کردیں۔۔۔ باقی ان کی مرضی ہے، ابھی مانیں یا اقتدار سے نکل کے۔