پوری قوم ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے ضمنی انتخابات اس کے اعصاب پر سوار رہے پھر انتظار تھا کہ عمران خان الیکشن جیتنے کے بعد لانگ یا شارٹ مارچ کا اعلان کر دیں گے لیکن ہیجانی کیفیت ابھی تک طاری ہے کیونکہ انہوں نے ابھی تک لانگ یا شارٹ مارچ کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے اس لئے ہیجان ابھی اپنی پوری قوت کے ساتھ طاری رہے گا۔ اطلاعات ہیں کہ پنجاب، کے پی، جی بی اور آزاد کشمیر کی طرف سے اسلام آباد/ راولپنڈی کی طرف آنے والے مرکزی مقامات کی نشاندہی کی جا چکی ہے جہاں قافلے پڑاؤ ڈالیں گے انہیں وصول کرنے، ٹھہرانے، کھانے پینے وغیرہ کی ذمہ داریاں بھی تفویض کر دی گئی ہیں یہ قافلے لانے والوں کو بھی اطلاعات دی جا چکی ہیں کہ کون کتنے بندے لائے گا، کیسے لائے گا، کہاں لائے گا، کہاں ٹھہرائے گا۔ جزوی طور پر سب کو پتہ ہے کہ کس نے کیا کرنا ہے لیکن کلی طور پر سوائے کچھ لوگوں کے کسی کو کچھ نہیں پتہ کہ کیا ہو گا اور کیسے ہو گا؟ عمران خان یہ سب کچھ اپنے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں یہ ساری پلاننگ کون کر رہا ہے، مینجمنٹ پلان کس کے پاس ہے یہ کسی کو پتہ نہیں ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سب کچھ بڑے منظم انداز میں کیا جا رہا ہے اور تنظیمی انداز میں کوئی تنظیم ہی یہ کچھ کر رہی ہو گی ظاہر ہے یہ تنظیم پی ٹی آئی تو نہیں ہو سکتی ہے۔
دوسری طرف امریکی صدر کا ہمارے بارے میں، ہمارے ایٹمی پروگرام کے بارے میں انتہائی سنجیدہ اور خطرناک بیان ہے جس پر قوم کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا چاہئے تھا لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ہم الیکشن الیکشن کھیل رہے ہیں، ضمنی انتخابات کے نتائج پر بحث و مباحثے ہو رہے ہیں۔ آئندہ کے لائحہ اعمال پر گفتگوئیں ہو رہی ہیں، دھمکیاں دی جا رہی ہیں، لانگ شارٹ مارچ کی، جوابی کارروائی کی، مار دھاڑ کی۔ اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ افراتفری کے بطن سے اگر ایک بار پھر مارشل لا نکل آیا تو پھر کیا ہو گا، ہم کیا کریں گے، اقوام عالم میں ہماری پوزیشن پہلے ہی کمزور ہے۔ مارشل لا کے نتیجے میں کیا بگاڑ میں اضافہ نہیں ہو جائے گا۔ ہماری ساکھ اور بھی کمزور نہیں ہو جائے گی؟ ہم قومی سطح پر ایک قوم کے طور پر قدرتی عذاب کا شکار ہیں، بارشوں نے 2/3 ملک مکمل طور پر سیلاب برد کر دیا ہے، ساڑھے تین کروڑ شہری اس عذاب کا براہ راست شکار ہو چکے ہیں، ہماری زراعت جو ہماری 63 فیصد آبادی کا روزگار ہے، مکمل طور پر بربادی کا شکار ہو گئی ہے۔ وبائیں پھیل چکی ہیں، آباد کاری ہمارے بس میں نہیں ہے، ہمارے سرکاری ادارے اور سول سوسائٹی اس قابل نہیں ہے کہ اتنی بڑی آفت کا سامنا کر سکیں، اس سے نمٹ سکیں حالات کا مقابلہ کر سکیں، ساڑھے تین کروڑ بے گھر آفت زدہ افراد کی بحالی کا کام کر سکیں۔
30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے ہماری معیشت پہلے ہی مشکلات کا شکار تھی کورونا تباہی مچا چکا تھا عمران خان کی 44 ماہی حکمرانی نے معاملات کو پوائنٹ آف نوریٹرن تک پہنچا دیا تھا۔ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی زری و مالیاتی ادارے ہم سے ناراض ہو چکے تھے، سعودی عرب، ترکی اور ایسے ہی برادر ممالک بھی ہم سے کنارہ کشی اختیار کر چکے تھے ایسے میں اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان حکومت کو چلتا کیا گیا۔ اس دن سے عمران خان سڑکوں پر ہیں فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں اس پر مستزاد سیلاب نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ معاملات بگڑتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
وزیراعظم نے بڑے واضح انداز میں کہہ دیا ہے کہ ”آنے والے دنوں میں ہمیں خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے قدرتی آفت اور عالمی منڈی میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث غذائی بحران بڑھ سکتا ہے“۔ آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی شرائط پوری کرنا شاید اب ممکن نہیں ہو گا۔ شہباز شریف حکومت نے آئی ایم ایف کو منانے کے لئے معاشی معاملات کو اس طرح چلایا کہ مہنگائی کا سونامی آیا۔ عوام کا بھرکس نکل گیا قدرِ زر میں گراوٹ پیدا ہوئی، عوام کی معاشی حالت پتلی نہیں بلکہ بالکل ہی پتلی ہو چکی ہے۔ اشیاء خورونوش کی قیمتیں ہوں یا بجلی، گیس اور پٹرول کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتیں، کسی کے بس میں نہیں رہیں، صنعتی یونٹس بند ہو چکے ہیں۔ بے روزگاری بھی عروج پر ہے۔ معاملات بالکل بے قابو نظر آ رہے ہیں۔
اس پس منظر میں امریکی صدر کا پاکستان اور ایٹمی پروگرام کے بارے میں خطرناک بیان، انتہائی سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ذرا غور کریں دنیا کی سب سے بڑی طاقت (امریکہ) کا سب سے طاقتور شخص (صدر) اپنے حلیف ملک کے بارے میں، اس کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں بڑے واضح انداز میں خوفناک بات کہتا ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سب سیاسی و غیرسیاسی اختلافات بھلا کر سنجیدگی سے سرجوڑ کر بیٹھنا چاہئے تھا بیان کی سنجیدگی پر غور کر کے لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے تھا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ چند مہینے پہلے جب قدرت کی ناراضی، شدید ناراضی کا اظہار ہوا، عذاب کا کوڑا برسا، سیلاب نے نظام الٹ پلٹ کر رکھ دیا تو ہمیں اس وقت بھی تھوڑی نہیں بہت سی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا لیکن ہم اس وقت بھی اپنے ہی کاموں میں لگے رہے، شہباز شریف اور صوبہ سندھ کی حکومت بھاگ دوڑ کرتی نظر آئی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور انجلینا جولی نے یہاں دورہ کیا۔ برادر اسلامی ممالک نے امدادی جہاز بھیجے اقوام مغرب نے بھی امداد دی اور امداد کے وعدے کئے لیکن ہم نے اس معاملے میں بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اشیا خورونوش پہلے ہی عام فرد کی رسائی سے دور جاتی نظر آ رہی ہیں۔ یوکرین کی جنگ نے عالمی مارکیٹ کے نظام رسد میں بھی گڑبڑ کر رکھی ہے ہمیں اس طرف سے بھی کسی خیر کی توقع نہیں ہے آنے والے دنوں میں قلت اور قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے گیس کی پہلے ہی قلت ہے ہمیں سستی ایل این جی بھی دستیاب نہیں ہے۔ سردیوں میں عوام کو کھانا پکانے کے لئے درکار ایندھن کا حصول بھی مشکل تر ہو گا۔ بے روزگاری اور قدر زر میں کمی کے باعث عامۃ الناس کی قوت خرید پہلے ہی پستیوں کو چھو رہی ہے۔ ایسے مایوس کن اور خوفناک حالات میں سیاست اور الیکشن کا کھیل کھیلنا مجرمانہ عمل نہیں تو اور کیا ہے۔ عمران خان کی منفی اور احتجاجی سیاست ملک کو بحران کی طرف دھکیل رہی ہے۔ حکمرانوں کی ناکارکردگی اور عوامی بے بسی معاملات میں بگاڑ کا پتہ دے رہی ہے اصلاحِ احوال کی سردست کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر ملک و قوم کو بحران سے نکالنے کی سبیل نکالنے کے لئے سرجوڑ کر بیٹھیں اور کوئی ایسا متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں جو ہمیں مزید تباہی و بربادی سے بچا سکے۔