پنجاب حکومت نے موجودہ سال کو علامہ اقبالؒ کا سال منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت پاکستان نے 75 روپے کا نوٹ جاری کیا جس پر علامہ اقبالؒ کی بھی تصویر ہے۔ اسی سلسلے میں بزم اقبال لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اقبالیات کے اشتراک سے شعبہ تعلیم و تحقیق کے وحید شہید ہال میں جلسہ ہوا۔ جلسہ کی نظامت کے فرائض ناصر شیرازی نے سرانجام دیئے۔
ممتاز صحافی اور تجزیہ نگار محترم مجیب الرحمان شامی تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔دیگر مقررین میں ڈاکٹر وحید الزماں طارق، اورینٹیل کالج کے پرنسپل علامہ غلام معین نظامی،سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی لاہور پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر شامل تھے۔ سیمینار میں مقررین نے خطاب کرتے ہوئے موضوع کی مناسبت سے اقبالؒ اور تحریک پاکستان پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ کس طرح اقبال ؒنے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا۔تقریب میں یونیورسٹی کے طلباء و طالبات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ محترم افضل حق قرشی، محترم عنایت علی، جناب سلیم چودھری صاحب کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔
چیف ایڈیٹر روزنامہ پاکستان جناب مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ علامہ اقبالؒ بہت با اصول انسان تھے۔ ان کی امانت، دیانت اور صلاحیت بہت مسلمہ تھی۔ علامہؒنے اپنی شاعری اور نثر کے ذریعے مسلمانوں میں بیدار ی پیدا کی۔علامہ اقبالؒ کی زندگی سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔ وطن عزیز کے سیاستدان طلباء اور سب کو ان کی شخصیت سے رہنمائی لینی چاہیے اس کے بغیر ہمارا آگے بڑھنا ممکن نہیں۔
پاکستان کا قیام اس برصغیر میں امن قائم کرنے کا ذریعہ تھا، پاکستان اور ہندوستان کو دشمن ملکوں کی حیثیت سے نہیں دیکھا گیا تھا بلکہ یہ سوچ تھی کہ امریکہ اور کینیڈا جیسے تعلقات ہوں گے۔ برصغیر میں امن قائم کرنا پاکستان کی ذمہ داری ہے ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جنوبی ایشیا
میں پرامن ماحول اور پرامن معاشرے کی تشکیل ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر وحید الزماں طارق نے بتایا کہ ایک دفعہ نہرو لاہو ر آئے ہوئے تھے اور وہ میاں صلاح الدین کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہ علامہ اقبالؒ سے ملنے کیلئے گئے۔ علامہؒ ان دنوں صاحب فراش تھے۔ نہرو چارپائی پر بیٹھنے کے بجائے نیچے زمین پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے کہ آپ قائد اعظمؒ کو اپنا لیڈر مانتے ہیں۔ علامہؒ نے جواب دیا کہ ہاں میں قائد اعظم ؒکو اپنا لیڈر مانتا ہوں۔ وہ مسلمانوں کے رہنما ہیں اور میرے بھی رہنما ہیں اور جس انسان کو اس سے اختلاف ہے وہ بے شک اٹھ کر چلا جائے تو وہ خاموشی سے اٹھ کر چلے گئے۔ بقول ڈاکٹر صاحب کہا جاتا ہے کہ دو ممالک پاکستان اور اسرائیل نظریاتی طور پر وجود میں آئے۔ پاکستان تو نظریاتی طورپر وجود میں آیا۔ علامہ اقبالؒ نے جو خطبہ دیاتھا، مارچ 1940 کے اجلاس کے بعد تحریک پاکستان کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا۔قائدؒ علامہ اقبالؒ کے مزار پر گئے اور کہا کہ کاش آپ زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ ہم نے آپ کے مشن کو پورا کیا ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل دراصل فلسطین تھا۔ یہ فلسطینیوں کا وطن تھا۔ یہاں کوئی یہودی نہیں رہتا تھا۔ یہودیوں نے یہاں غاصبانہ قبضہ کر کے دنیا بھر کے یہودیوں کو یہاں آباد کیا اور لاکھوں فلسطینیوں کو تہہ تیغ کیا۔ لہٰذا اسرائیل نظریاتی نہیں غاصبانہ ملک ہے۔ علامہ اقبالؒ میکلورڈ سکالر شپ کے تحت بطور ریڈر انٹرکالج میں کام کرتے رہے۔ انہوں نے عربی کا نصاب بھی تیار کیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں وہ مارکنگ بھی کرتے تھے۔ علامہؒ نے شکوہ جواب شکوہ موچی گیٹ میں پڑھااور وہاں بوریوں میں بھر کر پیسے اکٹھے کئے جو عثمانی خلیفہ کو استنبول بھجوائے گئے۔ علامہ اقبالؒ بطور وکیل کوئی کیس لیتے تھے تو پانچ سو روپے فیس کے بعد یہ کہہ کر کہ میرے لئے یہ کافی ہے، مزید کوئی کیس نہیں لیتے تھے۔انہی پیسوں پر قناعت کرتے تھے۔ علامہ اقبالؒ جو اپنا گوشوارے داخل کرتے تھے وہ حقائق کے مطابق ہوتے تھے۔ کوئی مخالف بھی ان پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا تھا۔ علامہ غلام معین نظامی نے علامہ اقبالؒ کی پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ وابستگی بارے بتایا کہ علامہ اقبالؒ اورپنجاب یونیورسٹی کا بہت گہرا تعلق تھا اس یونیورسٹی میں انہوں نے پڑھایا بھی اور اس کے نصاب میں بھی اہم کردار ادا کیا۔علامہ اقبالؒ نظریاتی شخصیت تھے جنہوں نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کے دوران ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل میں مسلم ریاست کے قیام کی تجویز دی تھی۔ ساری دنیا کے اندر علامہ اقبالؒ کو ایک فلسفی، ایک شاعر اور ایک دانشور تصور کیا جاتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر مظہر سلیم نے کہا کہ جب مسلمان کمزور پڑ گئے اور وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہے تھے تومولانا روم نے ان کے اندر بیداری پیدا کی تھی۔ علامہ اقبالؒ مولانا روم کو اپنا مرشد مانتے تھے۔ جو کچھ مولانا روم نے مسلمانوں کیلئے کیا اسی کی پیروی کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے بھی مسلمانوں کو وہی تعلیمات دیں اور مسلمانوں میں آزادی کا شعور پیدا کیا۔ مسلمانوں کو علیحدہ ریاست کے قیام کیلئے جدوجہد کرنے کا مشورہ دیا۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں فارسی پڑھائی جاتی ہے وہاں علامہ اقبالؒ کے کلام کو بھی پڑھایا جاتا ہے وہ صرف شاعر مشرق ہی نہیں بلکہ عالمی سطح کی شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی خودی کی شاعری سے مسلمانوں کو بیدار کیا۔
جناب مجیب الرحمن شامی صاحب نے بزم اقبال کے زیر اہتمام شاندار تقریب کے انعقاد پر راقم الحروف کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ریاض چودھری بہت محرک اور فعال شخصیت ہیں اور بزم اقبال کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے سرگرمی سے کام کر رہے ہیں اور انہوں نے بزم اقبال کو فعال ادارہ بنا دیا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والا آج کا جلسہ بھی انہی کی کوششوں کی وجہ سے ممکن ہوا۔ جناب وحید الزمان طارق نے بھی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ریاض چودھری صاحب نے اتنے اہم اور شاندار جلسے کا اہتمام کیا۔یہ بڑے سرگرم ڈائریکٹر ہیں اور بزم اقبال کو ایک فعال اور مستعد ادارہ بنا دیا ہے۔ تقریب کو کامیاب بنانے میں شعبہ اقبالیات کے سربراہ ڈاکٹر فرید احمد شاہ اور ڈاکٹر امان اللہ، ڈین لاء کالج اور پروفیسر عبدالقیوم چودھری نے بڑا تعاون کیا۔