میں سوچ رہاتھایہ چائنا کی لائٹیں نہ ہوتیں محض کردار سے رسول اللہ ؐ کے ساتھ اپنی محبت و عقیدت کو ثابت کرنا ہمارے لیے کتنا مشکل تھا،…… آپ ؐ نے شاید کسی اور معاملے پر اتنا زور دیا ہو جتنا اخلاقیات پر دیا، یہاں تک فرمایا ”روز قیامت میرے سب سے قریب وہ ہوں گے جن کے اخلاقیات بلندہوں گے“……ہمارا المیہ یہ ہے ہم عیدمیلادالنبیؐ بڑے جوش جذبوں سے منائیں گے، گھروں پر چراغاں کریں گے، نمائشی طورپر دیگیں تقسیم کریں گے، نیازیں بانٹیں گے، مگر جو کرنے والا کام ہے وہ نہیں کریں گے،اپنے کردار کو آپؐ کی حیات مبارکہ کے مطابق نہیں بنائیں گے۔ آپ کے ارشادات پاک کے مطابق زندگی بسرکرنا دُور کی بات ہے اُس کا تصورتک نہیں کریں گے۔ ہمارے حکمرانوں نے بھی اِس بار عیدمیلادالنبی ؐ کے موقع پر آپ ؐکے ساتھ اپنی محبت وعقیدت ظاہر یا ثابت کرنے کے لیے سرکاری طورپر مختلف تقریبات کا اہتمام کیا ہے۔ یہ اچھی بات ہے، لیکن اگر وہ اپنے طرز زندگی یا طرز حکمرانی کو آپ ؐ کے طرز زندگی یا طرزحکمرانی کے مطابق نہیں ڈھالتے، تو اِس کے علاوہ جو کچھ وہ کریں گے اُسے اُن کی ڈرامہ بازی ہی سمجھا جائے گا، ……خود ہم جو لکھنے والے ہیں ہمارے قول وفعل کا تضاد ہماری تحریروں اور گفتگوؤں میں اگر نمایاں اور واضح ہے، ہم بھی آپؐ کے ساتھ سچی محبت و عقیدت کا دعویٰ کیسے کرسکتے ہیں؟، ہماری محبتیں نمائشی ہیں ملاوٹی ہیں،…… کاش ہمیں اللہ اور رسول اللہ ؐ کے ساتھ سچی محبت نصیب ہو جو صرف اور صرف اُن کے احکامات وارشادات پر عمل کرنے کی صورت میں ہی ہوسکتی ہے، ……آپؐ کے اخلاقیات پر صرف مسلمان دانشوروں نے ہی نہیں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے بے شمار دانشوروں نے بھی لکھا۔ بے شمار ایسے شعراء نے نعتیں بھی لکھیں جو غیرمسلم تھے، ایک کرسچن شاعر جن کا نام اِس وقت مجھے یاد نہیں آرہا اُن کے دو نعتیہ مجموعے شائع ہوئے، یہ یقیناً آپؐ کے اُن جذبوں کا نتیجہ ہے جو آپؐ غیرمسلموں کے لیے رکھتے تھے، غیر مسلموں کے بارے میں آپ نے ارشاد فرمایا ”خبردار اگر کسی شخص نے غیر مذہب رعیت پر ظلم کیا یا اُسے اُس کی طاقت سے زیادہ تکلیف دی، یا اُس سے اُس کی مرضی کے خلاف کوئی شے لی تو میں روز قیامت اُس کی طرف سے جھگڑوں گا“،…… ایک مسلمان نے ایک اہلِ کتاب کو قتل کردیا، جب یہ مقدمہ آپؐ کے پاس آیا آپؐ نے فرمایا ”میں اہل ذمہ کا حق اداکرنے کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں، چنانچہ آپ نے قاتل کے بارے میں قتل کرنے کا حکم دیا……فتح مکہ کے موقع پر ایک انصاری کمانڈر سعد بن عبادۃ نے ابوسفیان سے کہا ”آج لڑائی کا دن ہے، آج ہم کفار سے جی بھر کر انتقام لیں گے“…… آپ یہ سُن کر ناراض ہوئے آپ نے اُن سے جھنڈا لے کر اُن کے بیٹے قیس کے سپرد کردیااور ابوسفیان سے فرمایا ”آج لڑائی یا انتقام کا نہیں رحمت اور معاف کرنے کا دن ہے“…… آپؐ نے اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابوسفیان کے گھر کو پناہ گاہ قرار دیا، ابولہب کے دوبیٹوں نے مسلمانوں کو سخت ایذائیں دی تھیں، فتح مکہ کے موقع پر یہ دونوں خانہ کعبہ کے پردوں کے پیچھے چھپ گئے۔ آپؐ نے اُنہیں معاف کردیا،…… ایک روز آپؐ اپنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ بیٹھے تھے ایک یہودی مقررہ وقت سے پہلے آگیا، اُس نے آپؐ کی چادر سختی سے کھینچی اور اپنا قرض واپس طلب کیا، حضرت عمرؓ اِس موقع پر جوش میں آگئے اور تلوار لہرانے لگے، آپؐ نے فرمایا ”عمر اس یہودی سے کہو اپنا قرض بہتر طریقے سے طلب کرے،اور مجھے بھی حُسنِ ادائیگی کے لیے کہو“…… وہ یہودی آپؐ کا حُسنِ سلوک دیکھ کر کہنے لگا ”اے محمدؐ اُس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق سے نوازا میں اپنا قرض وصول کرنے نہیں آیا، بلکہ اِس لیے آیا ہوں کہ آپ کا امتحان لُوں، میں گواہی دیتا ہوں آپؐ کے سوا کوئی برحق نہیں اور آپؐ اللہ کے رسول ہیں، …… اپنا فرض مسلمانوں پر صدقہ خیرات کرتا ہوں“…… عبدیالیل طائف کا رئیس تھا، اُس کے خاندان نے آپ ؐ پر اِس قدر ستم ڈھائے تھے اِک روز آپؐ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا ”عائشہ میری زندگی کا سخت ترین دن طائف میں گزرا“……عبدیالعل جب طائف کا وفد لے کر مدینہ آیا آپؐ نے اُس کے لیے مسجد میں خیمہ نصب کروایا، آپ ؐ ہرروز عشاء کی نماز کے بعد اُس سے ملنے جاتے، اُس کا خیال رکھتے، آپؐ نے اپنے مخالفوں اپنے دشمنوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کا عملی نمونہ پیش کیا،…… میں عیدمیلادالنبیؐ کے موقع پر اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شائع کروانے والے اپنے حکمرانوں خصوصاً اپنے ”حکمران اعظم“ سے پوچھ سکتا ہوں آپ جو اپنی تقریروں میں آپؐ کے ساتھ حقیقی محبت کا تصور اپنی قوم (ہجوم) کے سامنے رکھتے ہیں، اُس پر خود کتنا عمل کرتے ہیں؟ کیا آپ کا اپنے سیاسی وذاتی مخالفین کے ساتھ ویسا ہی رویہ ہے جیسا آپ ؐ کا اپنے دشمنوں ومخالفین کے ساتھ تھا؟……”اگر یہ نہیں باقی سب کہانیاں ہیں بابا“ …… اے میرے کم ظرف حکمرانو…… ”کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں؟“عبداللہ بن ابی ساری عمر منافق رہا، وہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا، آپؐ ہمیشہ درگزر فرماتے، جب وہ فوت ہوا آپؐ نے اُس کی نمازجنازہ پڑھی، حضرت عمرؓ نے اُس کی حرکتوں کی جانب آپ کی توجہ دلائی آپ ؐ نے فرمایا ”اگر مجھے اختیار دیاجاتا کہ میرے ستر بار نماز جنازہ پڑھنے سے اُس کی بخشش ہوسکتی ہے تو میں اِس سے بھی زیادہ پڑھتا…… اور آخری بات اس ملک و معاشرے کے اُن کروڑوں لوگوں کے لیے جو عیدمیلادالنبیؐؐ بہت جوش وجذبے سے مناتے ہیں، جوش جذبے سے منانی چاہیے کہ اِس سے بڑا دن مسلمانوں کی زندگی میں اور کوئی ہو نہیں سکتا، لیکن مکررعرض ہے اپنے اعمال کو بھی بدلنا چاہیے ورنہ آپؐ نے فرما دیا ہواہے”جب لوگوں کا یہ حال ہو جائے کہ وہ بُرائی کو دیکھیں اور اُسے بدلنے کی کوشش نہ کریں، ظالم کوظلم کرتے دیکھیں اور اُس کا ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے اللہ سب کو اپنے عذاب میں لپیٹ لے۔ خدا کی قسم تم کو لازم ہے کہ نیکی کا حکم دو اور بُرائی سے روکو وگر نہ اللہ تم پر ایسے حکمران مسلط کردے گا جو بدکردار ہوں گے اور وہ تم کو سخت تکلیف دیں گے۔ پھر تم خُدا سے دعائیں مانگو گے مگر وہ قبول نہ ہوں گی“……