ہر سال کی طرح اس سال بھی سرورِ کائنات حضرت محمدﷺ کے مولود کا مبارک دن بڑی شان و شوکت سے منایا جا رہاہے۔ ان کی اس دنیا میں تشریف آوری تاریخِ مذاہب کا سب سے بڑا واقعہ ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف جزیرہ نمائے عرب کی کایا پلٹ گئی بلکہ پورے عالمِ انسانی کو رحمت و رافَت اور تہذیب و توازن کا ایک لافانی دستور ملا، ایک ایسا لافانی دستور جس کی بنیاد تصورِ توحید پر رکھی گئی اور جس کے اجزائے ترکیبی میں احترامِ انسانیت، عدل و انصاف، مساوات، تہذیب ِ نفس، قول و فعل میں ہم آہنگی اور علم و آگہی جیسے عناصر شامل تھے۔ حضور اکرمﷺ کا ورودِ مسعود ایک ہمہ گیر انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس ہمہ گیر انقلاب کی توضیح و تشریح سیرت کے اس لازوال ذخیرے میں ورق در ورق دیکھی جا سکتی ہے جو اس چودہ سو برس کے عرصے میں دنیا کے اطراف و اکناف میں لاتعداد زبانوں میں وجود میں آیا اور جس سے قرآنِ حکیم کے اس ارشاد کی حرف بہ حرف تصدیق ہوتی ہے: ورفعنا لک ذکرک یعنی ہم نے تیرا ذکر بلند کیا۔ حق یہ ہے کہ ذکر کی یہ بلندی اور رفعت زمان و مکان کے حدود سے ماورا ہے۔ آنے والا ہر زمانہ لاریب حضورﷺ کا زمانہ ہے۔ علامہ شبلی نے کس کیف اور سپردگی کے عالم میں ظہورِ قدسی کا نقشہ لافانی پیرائے میں کھینچا تھا: آج کی تاریخ وہ تاریخ ہے جس کے انتظار میں پیرِ کہن سالِ دہر نے کروڑوں برس صرف کر دیے۔ سیارگانِ فلک اسی دن کے شوق میں ازل سے چشم براہ تھے۔ آج کی صبح وہی صبحِ جاں نواز، وہی ساعتِ ہمایوں، وہی دورِ فرخ فال ہے۔ اربابِ سِیَر اپنے محدود پیرایہئ بیان میں لکھتے ہیں کہ آج کی رات ایوانِ کسریٰ کے چودہ کُنگرے گر گئے، آتشکدہئ فارس بجھ گیا، دریائے ساوہ خشک ہو گیا، لیکن سچ یہ ہے کہ ایوانِ کسریٰ نہیں بلکہ شانِ عجم، شوکتِ روم، اوجِ چین کے قصر ہائے فلک بوس گر پڑے، آتشِ فارس نہیں بلکہ جحیم شر، آتشکدہئ کفر، آذر کدہئ گمرہی سرد ہو کر رہ گئے، صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی، بتکدے خاک میں مل گئے، شیرازہئ مجوسیت بکھر گیا، نصرانیت کے اوراقِ خزاں دیدہ ایک ایک کر کے جھڑ گئے، توحید کا غُلغُلہ اٹھا، چمنستانِ سعادت میں بہار آ گئی، آفتابِ ہدایت کی شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں، اخلاقِ انسانی کا آئینہ پرتوِ قدس سے چمک اٹھا۔
اور پھر زمانے کی آنکھ نے دیکھا کہ سمرقند، بلخ، بخارا، بغداد، شیراز، اصفہان، ہمدان، سسلی، قسطنطنیہ، قونیہ، ہسپانیہ، لاہور اور دہلی مسلم تہذیب کے بڑے مراکز قرار پائے اور ان مراکزِ تہذیب سے دانش و بینش کی کرنیں دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلیں۔ ایجاد، انکشاف اور اکتشاف کے نئے پیرائے ظہور میں آئے۔ مغربی دنیا نے ذرا دیر سے مگر بہرحال عالم انسانی اور خود مغرب پر اسلام کے فیضان و احسان کا کھل کر اعتراف کیا۔ بارھویں صدی کے اواخر تک جب یورپ جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں غرق تھا، سسلی اور مسلم سپین میں دانش و آگہی کے چراغ روشن ہو رہے تھے۔ اقبال نے اس دانش و آگہی کو اُس پری سے تشبیہ دی تھی جو ہمارے ہی اسلاف کے شیشے سے اڑ کر مغرب تک پہنچی تھی، ہمارے ہی قافِ دانش سے پرّاں ہو کر اہلِ مغرب کی آنکھ کا تارا بنی تھی۔
حضور اکرمﷺ نے پوری نوعِ انسانی کو دنیوی اور اُخروی حیات کا ایک دائمی اور ابدی منشور عطا فرمایا۔ ان کی آمد سے یثرب، مدینہ بنا۔ ضلالت و گم رہی، بت پرستی و سفاکی، انسانی توہین و توہم، بد
کرداری و بد اخلاقی اور بدچلنی و بد سگالی کے بت پاش پاش ہو گئے۔ حضورﷺ نے کلماتِ الٰہی کی دستاویز ایک کتابِ زندہ کی صورت میں اہلِ عرب اور اہلِ عالم کو ہدیہ کی اور خود اپنی ذاتِ بابرکات کو ایک جوامع الکلم، ایک چلتے پھرتے قرآن، ایک زندہئ جاوید اسوہئ حسنہ کے طور پر اہلِ دنیا کے سامنے لا کھڑا کیا۔ مدینے کی معصوم بچیاں عالم وجد میں دف پر ”طلع البدر علینا“ پڑھتی ہوئی کہہ رہی تھیں ”ایھاالمبعوث فینا۔ جئت بالامر المطاع“ (اے ہم میں آنے والے! آپ ماننے کے لائق چیز لے کر آئے ہیں)۔ اہلِ مشرق تو ایک طرف، آج اہلِ مغرب کے انصاف پسند بھی معترف ہیں کہ حضورﷺ دنیا کے تمام انبیاء اور مذہبی شخصیات میں کامیاب ترین ثابت ہوئے اور ان پر نازل ہونے والا قرآن دنیا کی سب سے زیادہ پڑھے جانے والی کتاب ہے (دی موسٹ وائیڈلی ریڈ بُک انایگزسٹنس)
آج ہمارا حال یہ ہے کہ اہلِ اسلام دنیا کے بازار کی ایسی جنس ہیں جس کا کوئی خریدار نہیں - حقیر، بے وقعت اور ناقابلِ التفات۔ مسلمانوں میں جو چند ملک ثروت مند ہیں وہ عیش کوش اور حال مست ہیں، جو پچھڑے ہوئے اور پسماندہ ہیں وہ کشکول تھامے عالمی بنک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے حضور سجدہ ریز ہیں اور جمعراتیوں کی طرح اونچے سروں میں لب کشا ہیں: آئے ہیں تیرے در پہ تو کچھ لے کے جائیں گے! ایسے میں مجھے نامور نعت گو حفیظ تائب کا ایک نعتیہ شری آشوب یاد آتا ہے: اے نویدِ مسیحا تری قوم کا حال عیسیٰ ؑ کی بھیڑوں سے ابتر ہوا/ اس کے کمزور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یا نبی! / دشمنِ جاں ہوا میرا اپنا لہو، میرے اندر عدو، میرے باہر عدو/ ماجرائے تحیر ہے پرسیدنی، صورتِ حال ہے دیدنی یا نبی/ سچ مرے دور میں جرم ہے عیب ہے، جھوٹ فنِ عظیم آج لاریب ہے/ ایک اعزاز ہے جہل و بے راہروی، ایک آزار ہے آگہی یا نبی۔
تائب صاحب مرحوم کے شعر درج کرتے کرتے اس ناچیز کو اپنے ایک نعتیہ شہر آشوب کے بھی چند شعر یاد آ گئے:
اس عہد کے مصلحوں کے ہاتھوں
دامانِ خیر دھجیاں ہے
اس عہد کا ہر ”حسینِ اعظم“
بیعت کنِ دستِ کوفیاں ہے
اس امتِ بے جہت کا ہر فرد
افتاں خیزاں یہاں وہاں ہے
پانی پانی پکارتا ہے
آوارہئ دشتِ بے اماں ہے
اے ذاتِ احد کے ناز بردار
امت تری خادم ِ بتاں ہے
کل تک جو میرکارواں تھی
اب دیکھو تو گردِ کارواں ہے
میرے نزدیک آج کی امتِ مسلمہ کے سامنے سب سے بڑا اور گمبھیر سوال یہی ہے: جو قوم میرِ کارواں تھی، گردِ کارواں کیوں ہو گئی؟ اسی سوال کے شافی جواب اور حل پر امتِ مسلمہ کی حیاتِ تازہ کا دارومدار ہے۔ ایسا نہیں کہ اس سوال کا جواب نہ دیا گیا ہو مگر کوئی بھی جواب زیادہ اطمینان بخش نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان اور دنیائے اسلام کے دردمند علماء، دانشور اور مسلم معاشروں کی بہتری اور ترقی کے لیے سوچ بچار کرنے والے لوگ سر جوڑ کر بیٹھتے اور امتِ مسلمہ کے زوال کا گہرا تجزیہ کرتے۔ مگر یہ محض ایک خواب معلوم ہوتا ہے۔ حال ہی میں حکومتِ پنجاب کے مشتہر کردہ ”عشرہئ رحمتہ للعالمین ؐ“ پر ایک نگاہ ڈال جائیے۔ یہ اشتہار کئی روزناموں میں شائع ہوا ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے ملی زوال اور عروج کے امکانات پر کوئی مذاکرہ ان پروگراموں میں شامل نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ محض ایک رسم ِ دیرینہ نبھائی جا رہی ہے۔ ستم یہ ہے کہ اس عشرے کا عنوانِ جلی مظفر وارثی کے ایک نعتیہ مصرعے: ”مرا پیمبر عظیم تر ہے“ کو بنایا گیا ہے اور حکومتِ پنجاب کے مدارالمہام کے کسی مشیر کو یہ احساس تک نہ ہوا کہ جو پیغمبر دنیا کا سب سے عظیم نبی تھا اور ہے، یعنی نبیِ اعظم، اسے ”عظیم تر“ کہنا اس کے شایانِ شان نہیں۔ حضورﷺ دنیا کے ”عظیم ترین“ پیغمبر ہیں اور عظیم ترین ہی کی رعایت سے کوئی عنوان تجویز کیا جانا چاہیے تھا۔ مثلاً ایک عنوان یہ ہو سکتا تھا: ”آسمانِ نبوت کے نیّرِ اعظمﷺ“۔
بدقسمتی سے ہم نعروں پہ زندہ رہنے والی قوم ہیں، ایسی قوم جس کا حال بے حال ہے اور جس کے مستقبل کی کسی کو فکر نہیں حال آنکہ پاکستان کے لوگ دنیا کے نہایت محنتی اور ذہین افراد ہیں۔ ان کی رگوں میں تخلیق کا جوہر دوڑتا ہے مگر اس کا کوئی سمت نما نہیں ہے۔ ان حالات میں پاکستان کی نئی نسل یاسیت کا شکار ہے۔ رہی سہی کسر لاقانونیت، گردن توڑ مہنگائی، اقربا نوازی، خویش پروری اور میرٹ کی بے رحم پامالی نے نکال دی ہے۔ ہم بحیثیت ایک قوم ایک بے رحم خود فریبی کا شکار ہیں۔ حق یہ ہے کہ سیرتِ سرورِ عالمﷺ کی سچی اور کھری پیروی ہی ہمیں اس خوفناک خود فریبی کے سراب اور آسیب سے نکال سکتی اور حیاتِ نو سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ کیا ہم میں حیاتِ نو کی امنگ اور آرزو ہے؟