ختم نبوت کے موضوع پر عام تعطیل کا عنوان اس لیے رکھا ہے کہ ختم نبوت پر ایمان لائے بغیر اسلام پر ایمان مکمل تو درکنار سرے سے ہی نہیں ہوتا۔
سب جانتے ہیں اللہ، انبیاء، رسول اللہﷺ الہامی کتابوں، فرشتوں، اللہ کو ہر اچھی اور بری تقدیر کا مالک ماننا اور روز آخرت پر ایمان لانا لازمی اور بنیادی عقائد و شرائط ہیں۔ ان میں آقا کریمﷺ کو آخری نبی نہ ماننا اور کسی بھی صورت، کسی بھی شکل، کسی بھی طریقہ کسی بھی استدلال، کسی بھی طرح آئندہ کسی کی نبوت کی امید ہی رکھنا، وہم بھی پیدا ہونا، دل کے نہاں خانے میں کوئی خیال بھی آ جانا، دلیل دینا، کوئی نیا نام یا اصطلاح استعمال کر کے خاتم النبیینؐ کے گھر کو نقب لگانے والا، اس کا ساتھ دینے والا، اس پر کسی بھی طور یقین کرنے والا کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن مومن اور مسلمان ہرگز نہیں۔ یہود و نصاریٰ تو بہت دور کی بات ہیں، کفار بھی ان سے بہتر ہیں کیونکہ یہ منافقوں کی طرح نئے طریقہ سے دین سے دشمنی اور سرکار کریمﷺ کی دل آزاری اور امت کے غصے کا سبب بنتا ہے۔
یہود و نصاری آپ کے دوست نہیں مگر معاملات زندگی اور کاروبار کے لیے کوئی امر مانع نہیں۔ دوست کی بات کی گئی ہے جو بھروسہ، حقوق و فرائض کے لامتناہی سلسلے کا نام ہے۔
اسلام کے نام پر بہت سیاست ہو گئی، سنا ہے اعمال کی معافی ہو سکتی ہے مگر عقائد پر اللہ گرفت ضرور کرے گا۔ 1977ء میں سیاسی تحریک کو نظام مصطفیؐ کا نام دے کر گرمایا گیا یہ منافقت کی عظیم مثال تھی پھر کیا ہوا کہ یہاں تو نظام مصطفیؐ قائم نہ ہو سکا البتہ ضیاء الحق کے دور میں طوائفوں کو 11:30بجے سے ایک ڈیڑھ بجے تک گانے بجانے کی اجازت مگر سیاسی حقوق مانگنے والوں کا کوڑے، قیدیں، قلعے، سزائے موت، جلا وطنیاں اور جلیں مقدر بنا دی گئیں مگر اس کے اثرات یہ رہے کہ آج ہر جگہ اسلام کے نام پر سیاست کی دکان کھل گئی۔ موجودہ حکومت ”عمران دے جلسے وچ نچنے نوں جی کردا“ عمران کے جلسے میں ناچنے کو دل چاہتا ہے کے نغمے اور ڈانس کی بنیاد پر، گالی، دشنام و بہتان طرازی، جھوٹ، مکاری، فریب، دھوکہ دہی، دھاندلی کی بنیادوں پر قائم ہوئی۔ 100 دن کے ڈھکوسلے دیئے گئے۔ سابقہ حکمرانوں کو حالات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ میرا دل تو نہیں تھا کہ آج سیاست یا موجودہ حکومت کی بات کر کے اپنے کالم کو نجس کرتا مگر یہ عنوان بھی ان کی رنگ بازیوں کی وجہ سے ذہن میں آیا۔ بہرحال آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف حضرت عبدالقادر بے دل کہتے ہیں کہ ”مقلد اپنی جہالت کا اعلان کرتا ہے“ اس میں اللہ کی عبادت اور اطاعت رسولؐ اور خدمت خلق ”اعمال صالح“ شامل نہیں بلکہ اس کی بنیادپر وہ کہتے ہیں کہ مقلد اپنی جہالت کا اعلان کرتا ہے، جتنا مرضی عالم فاضل ہو، اس کی تقلید دین سے ٹکرائے گی تو جہالت ہی نہیں ذلت بھی ہو گی۔رحمتہ اللعالمین آقا کریمﷺ کی ذات اقدس دنیا میں اللہ رب العالمین کے بعد کائنات میں سب سے بڑی ہستی ہے۔ ہمارے ہاں اکثر خرافات جلد در آتی ہیں۔ دنیا کے کسی بھی قانون کی کتاب کھولیں اس میں الفاظ کی تعریف دی گئی ہو گی مثلاً شخص، کمپنی، وراثتیں، غیر قانونی امپورٹ، سمگلنگ وغیرہ وغیرہ کسے کہتے ہیں اسی طرح چند القابات اور تعریفات دین اسلام اور اسلامی روایت میں مخصوص ہیں۔ پتہ نہیں کس نے یہ جرم کیا کہ آئین میں صادق اور امین کا لفظ ڈال دیا۔ 62-63کی شق کی شرائط اس لفظ کے استعمال کے بغیر بھی ممکن ہیں۔ میں کئی بار لکھ چکا کہ صادق اور امین صرف میرے آقاؐ کا لقب ہے جو بعثت نبوت سے پہلے عرب سر زمین کے باشندوں نے انہیں دیا اور اپنے معاشرے میں ممتاز کر دیا۔
موجودہ حکومت نے جب دیکھا کہ کوئی دعویٰ، وعدہ، پورا نہیں ہوا تو ریاست مدینہ کا نام لے لیا۔ یہ بہت چالاک لوگ ہیں انہیں معلوم ہے کہ اللہ کو تو عیسائی، یہودی اور کسی نہ کسی شکل اور نام سے دنیا کی اکثریت مانتی ہے مگر رسول اللہ ﷺ کے ماننے والے صرف ان پر ایمان ہی نہیں رکھتے ان سے عشق و مؤدت بھی کرتے ہیں ان کے غلام ہیں لہٰذا یہ حکومت ریاست مدینہ کے نام سے عشق رسولؐ کو اپنے لیے ڈھال بنانے لگی ”استغفراللہ، نعوذ باللہ“ کچھ اللہ کا خوف کرو۔
اب 12 ربیع الاول جو کہ ہر سال منایا جاتا ہے جو ہم بچپن میں 12 تاریخ کو وفات کے نام سے سنتے تھے۔ بہرحال سرکار کریمؐ کی ولادت کے دن کے نام پر خوشی عقیدت و تحسین کا اظہار ہر اعتبار سے قابل فخر اور باعث روحانی اطمینان ہے مگر اس کو حکومتی پالیسی کے طور پر استعمال کرنا اپنی سیاست کی خاطر غلامانِ رسول کے جذبات سے کھیلنا ہے۔
اگر کسی شخص کا آخرت پر ایمان نہیں تو ہر ایمان بے سود اور فارغ ہے۔ اسی طرح اگر کوئی آقا کریمؐ کی نبوت پر آخری نبی ہونے پر کسی بھی صورت طریقہ،حیلہ بہانا سے انکاری ہے تو وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر مسلمان نہیں۔ وہ عالم جو رسول اللہﷺ کو آخری نبی نہ ماننے والوں کو یہود و نصاریٰ سے بہتر سمجھتے ہیں ان کی عقل پر چار حروف۔ آقا کریمؐ کو آخری نبی تو یہود و نصاریٰ بھی مانتے ہیں۔ شرک و
تکبر کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے مگر آقاؐ کو جو پھر کہتا ہوں آخری نبی نہیں مانتا وہ کچھ بھی ہے مگر مسلمان ہرگز نہیں اور آقاکریمؐ کے لیے یہ شر سب سے زیادہ تکلیف دہ تھا۔ لہٰذا خرافات کو ختم کرنا ہو گا۔
حکومت نے رحمت اللعالمینؐ اتھارٹی بنائی ہے پہلے اس اتھارٹی کے قیام کے ساتھ پاکستان میں جہاں 15، 16 قومی، عوامی اور اسلامی سالانہ چھٹیاں ہیں ایک چھٹی ختم نبوت کے نام سے بھی منسوب کر دی جائے چاہے وہ فتح مکہ کے دن، 27 رمضان المبارک یا اس موضوع پر ملی تہوار کے طور پر قومی چھٹی کے لیے کوئی اور دن چن لیں تاکہ پوری دنیا جو پاکستان کو جانتی ہے اور اسلامی دنیا بالخصوص پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان ہر خاص و عام انسان کو معلوم ہو کہ پاکستان میں آج چھٹی ہے اس پر پورے ملک میں سرکاری اور نجی سطح پر جشن منائے جائیں تا کہ دنیا میں ختم نبوت اور آقاؐ کے در اقدس کو نقب لگانے والے نقال دنیا میں بے نقاب ہوں کہ آقا کریمؐ کے بعد کوئی نبی نہیں۔
اسی طرح چند دیگر القابات ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ شراب و شباب کی محفل سجانے والے کرپٹ سرکاری افسران، سیاسی بونے، سرمایہ دار، دوستی کی بات کریں گے تو یار غار کا لفظ استعمال کریں گے جبکہ چندتعریفات مخصوص ہیں مثلاً:
یارغار: صرف حضرت ابو بکر صدیق ؓہیں …… سید الشہداء: حضرت امیر حمزہ ؓ ہیں …… سیف اللہ حضرت خالد بن ولیدؓ…… شیر خدا ومولا(مفہوم حدیث): حضرت علی ؓ ہیں …… اہل بیت: صرف آقا کریمؐ کے گھر والے…… ازواج مطہرات: آقاکریمؐ کی ازواج ہیں جبکہ آل رسول کا مقام درود شریف سے واضح ہے…… صحابی: صرف وہ جب رسول اللہ ﷺ کی معطرسانسیں اس فضا میں موجود تھیں انہیں دیکھا اور دل سے ایمان لائے، دل سے یقین کیا اور بہت سی تعریفات مخصوص ہیں میں کچھ مزید لکھ کر متنازع بات نہیں کرنا چاہتا ہوں۔لیکن فی الحال ”ریاست مدینہ“ صادق اور امین کے لقب کو آقا کریمؐ سے منسوب رہنے دیں (عدلیہ، میڈیا اور پارلیمنٹ سے بھی یہی گزارش ہے) ختم نبوت کے نام سے سال میں ایک چھٹی کا اعلان کر ے اگر یہ چھٹی فتح مکہ کے دن ہو گی تو پوری تاریخ ہر سال دہرانے کا موقع ملے گا یا پھر آقا کریمؐ کے آخری خطبہ عرفات کے دن کو ختم نبوت کے نام سے منسوب کرکے چھٹی کا اعلان کیا جائے۔