یورپی پارلیمنٹ نے اپریل کے آخر میں ایک قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کی تھی جس میں پاکستان کو دیے گئے جی ایس پی پلس پر نظرثانی کرنے کا کہا گیا تھا۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ایسے قوانین ہیں جو اقلیتوں اور بنیادی حقوق کے منافی ہیں، قرارداد کے متن میں واضح کیا گیا کہ یورپی یونین یا دیگر مغربی ممالک اقلیتوں کے لیے پاکستان کو ایک غیر محفوظ ملک سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اقلیتیں تو ایک طرف پاکستان اپنے شہریوں کو بھی بنیادی حقوق دینے میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ بھی قرارداد میں پاکستان کے بارے تحفظات کا اظہار کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ ہم نظرثانی کے بعد فیصلہ کریں گے کہ پاکستان کو جی ایس پلس کا حصہ رکھا جائے گا یا نہیں۔ ہم ان تحفظات پر آگے چل کر بات کریں گے، پہلے ہم جی ایس پی کے بارے میں جان لیتے ہیں۔
1971ء میں اقوام متحدہ کی کانفرنس ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ نے ایک قرار دار منظور کی تھی جس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ یورپی ممالک ترقی پذیر ممالک کی برآمدات بڑھانے اور وہاں پر روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ان ممالک کی مصنوعات کو یورپی منڈیوں تک رسائی دے گا۔ جس کے بعد جرنلائزڈ سکیم آف پریفرینس (جی ایس پی) کا آغاز ہوا۔ جرنلائزڈ سکیم آف پریفرینس کے تحت یورپی منڈیوں تک پہنچنے والی مصنوعات کے ڈیوٹی ٹیرف کو ختم یا ان میں کمی کر دی جاتی ہے۔ اس سکیم کے تین مرحلے ہیں جس میں بنیادی جی ایس پی، جی ایس پی پلس اور ایوری تھنگ بٹ آرمز یعنی اسلحے کے علاوہ سب شامل ہیں۔ پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ 2013ء میں ملا تاہم اس کے فوائد یکم جنوری 2014ء سے 2017ء تک ڈیوٹی فری رسائل کے طور پر حاصل ہوئے۔ جن میں بعد ازاں دو مرتبہ توسیع کی جا چکی ہے۔ پاکستان کی ایسی دو تہائی مصنوعات جن پر درآمدی ڈیوٹی لگنی ہوتی ہے، اسے کم کر کے صفر کر دیا گیا ہے لیکن اس کے لیے کچھ شرائط بھی رکھی گئی ہیں۔ جس ملک کو بھی یہ درجہ دیا جاتا ہے اسے انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق، ماحولیات کے تحفظ اور گورننس میں بہتری سمیت 27بین الاقوامی معاہدوں کی توثیق کرنا ہوتی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے بنیادی اصولوں کے تحت صنعتوں اور کارخانوں میں یونین سازی کو یقینی بنانا ہو گا جبکہ جبری یا رضاکارانہ مشقت، چائلڈ لیبر، جنس، رنگ و نسل اور عقیدے کی بنیادی امتیازی طرزِ عمل کو بھی ختم کرنا ہو گا۔ جی ایس پی سہولت سے فوائد حاصل کرنے والے ممالک میں اگر کوئی بھی ملک ان 27 معاہدوں کی خلاف ورزی کرے گا تو یورپی یونین اس ملک کو دی جانے والی اس سہولت پر نظرثانی کی مجاز ہے، صرف یہی نہیں بلکہ ان معاملات پر یورپی یونین کو مانیٹرنگ اور اس کی رپورٹنگ کو بغیر تحفظات کے ماننا ہو گا اور اپنا تعاون بھی پیش کرنا ہو گا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ پاکستان کو 2014ء میں جی ایس پی کے فوائد ملنا شروع ہوئے جن میں دو مرتبہ توسیع ہوئی۔ پاکستان اس سے پہلے یورپی مارکیٹ کے لیے 2002ء سے 2004ء کے درمیان جی ایس پی سکیم کے فوائد سمیٹتا رہا ہے مگر جی ایس پی پلس پاکستان کے لیے اس وقت ختم کر دی گئی جب ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) میں اس کو چیلنج کیا گیا اور ایسے میں پاکستان کو اس سہولت سے محروم کر دیا گیا۔
وزارت تجارت کے مطابق 2014ء سے جی ایس پی پلس کے آغاز سے ہی یورپی یونین میں پاکستانی برآمدات میں 65فیصد کا اضافہ دیکھا گیا جبکہ یورپی یونین سے درآمدات میں 44فیصد اضافہ ہوا۔ وزارت خزانہ کے 2019-20 کے اقتصادی سروے کے مطابق گزشتہ مالی سال میں ڈالر کے مقابلے میں یورو کی قیمت میں کمی کے باوجود پاکستان یورپی منڈیوں میں اپنی تجارت بڑھانے میں کامیاب ہوا۔ ویلیو ایڈڈ مصنوعات کے ساتھ یورپی یونین کو برآمدات میں 6 اعشاریہ 9 فیصد اضافہ ہوا۔ معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق ”پاکستان یورپی منڈیوں میں کم و بیش آٹھ ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کرتا ہے جبکہ وہاں سے درآمدی بل پانچ ارب ڈالر کا ہوتا ہے۔ دنیا کے بہت کم ممالک ہیں جن کے ساتھ ہمارا تجارتی حجم مثبت رہتا ہے اور ہمیں وہاں خسارہ نہیں ہوتا اور ان ممالک میں امریکہ اور یورپ نمایاں ہیں۔ ہمارا یورپ کے ساتھ کم و بیش تین ارب ڈالر کا سرپلس ہے“۔ معاشی تجزیہ کاروں نے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہم تقریباً باقی تمام ممالک کے ساتھ تجارتی خسارے میں ہیں سوائے یورپ اور امریکہ کے، اگر یورپی یونین جی ایس پی پلس سٹیٹس کی سہولت واپس لیتی ہے تو ڈر ہے کہ یہ سر پلس ختم ہو جائے گا، یہی وجہ ہے کہ اس وقت جی ایس پی پلس کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔
گورنر پنجاب بیس اکتوبر تک یورپ کے دورے پہ ہیں، ان کا بنیادی مقصد یورپی پارلیمنٹیرینز سمیت اقوام متحدہ کے اہم ممبران سے ملاقاتیں اور انہیں پاکستان کی موجودہ معاشی اور سماجی صورت حال سے آگاہ کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کو اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ پاکستان میں جہاں اپنے شہریوں کو بنیادی سہولیات اور حقوق دیے جا رہے ہیں وہاں اقلیتوں کو بھی مکمل تحفظ حاصل ہے، ان کو نوکریوں سے لے کر تجارت اور عبادات تک مکمل آزادی ہے اور انہیں پاکستان کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ دنیا میں وہ لابیاں جو ہر دور میں پاکستان کی ترقی کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرتی رہیں، آج ان کو منہ توڑ جواب دینے کا وقت ہے۔ حکومتِ وقت نے اس کام کے لئے گورنر پنجاب کو اپنا نمائندہ بنا کر یورپ بھیجا ہے کیونکہ وہ یورپ کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھتے اور جانتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے پاکستان میڈیا رائٹرز کلب کے ممبران کی چیئرمین افتخار خان کی سربراہی میں گورنر پنجاب چودھری سرور سے ون ٹو ون ملاقات ہوئی، ملاقات میں راقم بھی موجود تھا اور گورنر پنجاب نے کلب کے ممبران کو جی ایس پی اپلس اور یورپی یونین کے تحفظات کے بارے تفصیلی آگاہ کیا اور اپنے دورہ یورپ کے مقاصد بھی بتائے۔ گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ اس وقت یورپی یونین کو اس بات کی یقین دہانی کرانا ناگزیر ہے کہ پاکستان اپنے شہریوں کو بلا تعصب اور بلا تفریق مسلک و مذہب مکمل حقوق دے رہا ہے، پاکستان کے خلاف منفی بیان بازی کرنے والی معاشی طاقتوں اور ڈپلومیٹک ممالک کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے، یہاں کسی بھی طرح کے شر پسند عناصر کو برداشت نہیں کیا جائے گا، پاکستان اس وقت اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے نمٹنے میں مصروف ہے، ایسے میں یورپی یونین کا جی ایس پی پلس سٹیٹس پر تحفظات کا اظہار قابلِ تشویش ہے اور پاکستان کے لیے معاشی خسارے کا باعث بن سکتا ہے۔